Thursday, December 15, 2011


اسلامی تھذیب ایک اھم ضرورت

ایک طوفان بد تمیزی :


مسلمانو ! موجودہ تھذیبی چیلنج کے دور میں خصوصا جبکہ ذرائع ابلاغ نے دین اسلامی پر رنگ رنگ حملوں کا ایک طوفان بد تمیزی بپا کر رکھا ہے ان حالات میں امت اسلامیہ کی یہ ضرورت بڑی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ تمام افراد کو ( اسلامی تھذیبی پروجیکٹ ) کے بارے میں مکمل طور پر اطلاع ھو تا کہ اپنا نہج و نظر اور جھود و کوششوں میں باقاعدہ نظم و ضبط پیدا کیا سکے ، آپس میں اعلی کردار اور عمدہ اخلاقی قدروں کو ترقی دی جا سکے اور پیار و محبت ، معافی تلافی اور باھمی رحم و کرم کے جذبوں کو فروغ ملے ، باہمی تعاون ، دلوں کی صفائ اور افہام و تفہیم کی فضاء قائم ھو ، انسانیت ترقی کرے اور بشریت سعادتوں سے دوچار ھو ۔
مسلمانان عالم ! وحی مطہر کی نصوص کے استیعاب و استقراء کرنے ، تاریخی واقعات و حوادث کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے اور حقائق و واقعات کی دنیا پر غور و فکر کرنے سے ایک صاحب بصیرت و باغیرت مسلمان اس نتیجہ پر بآسانی پہونچ جاتا ہے کہ اسلام پر حملوں ، اسکے اصل حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں اور اسکے محاسن کو مٹانے کی لاحاصل و نامسعود مساعی روز بروز بڑھتی ہی جا رھی ہیں ختم نہیں ھو رہیں ، انکا حجم روز افزوں ہے اور روبزوال نہیں ، اور اس امر کی خطرناکی اور نقصان اس وقت اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب اس ابلاغی جنگ کی بتی کو آگ لگانے والے اور اسلام دشمنی کرنے والے وہ لوگ ھوں جنکے قلم خود غرض اور بکاؤ مال ھوں اور انھیں کچھ ایسے اداروں کی پشت پناہی حاصل ھو جو بحث و تمحیص اور اسٹڈی و ریسرچ کے دعوے دار ہیں اور وہ ایک منظم شکل اور طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں ۔ یہ چیزیں امت اسلامیہ سے اس بات کا بھر پور مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ان اسلام دشمن حملوں کی یلغار کا بخوبی جائزہ لے ، اسکے اغراض و مقاصد اور اھداف پر غور کرے اور انکا مقابلہ و دفیعہ کرنے کیلۓ باقاعدہ ایک منظم پروگرام مرتب کرے ۔ اوراپنی غرض کیلۓ اس بات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ امت اسلامیہ اپنا ایک [ اسلامی تھذیبی پراجیکٹ ] تیار کرے جس کی تکمیل کے لۓ ہر غیرت مند اور دیندار حسب استطاعت بڑھ چڑھ کر حصہ لے ۔ اگر مالی طور پر کسی کے لۓ کچھ ممکن نہ ھو تو کم از کم وہ اپنے حسن کردار ، حسن معاملہ ، حسن عمل اور حسن اخلاق کے ذریعے دنیا کے سامنے اسلام کی بہترین تصویر پیش کرے ۔
اسلامی تھذیبی پلان یا منصوبے کا اصل محرک
برادران عقیدہ ! اس اسلامی تھذیبی پروجیکٹ کی تجویز کا اصل باعث و سبب دراصل وہ حملے ہیں جس کے تمام ترتیر امت اسلامیہ کے دین حق امت کی اخلاقی قدروں ، اسکے اصولوں اور قواعد اور ساتھ ہی امت کے اسلامی ممالک پر چلاۓ جا رہے ہیں حتی کہ اللہ تعالی کے مقام ربوبیت و الوھیت کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔ اور صاحب رسالت و نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم – ان پر میرے ماں باپ قرباں ھوں – کی ذات گرامی کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔ شرعی حدود اور اسلامی قانون جرم سزا کا مذاق اڑایا جا رہا ، اسے کالعدم قرار دینے کے مطالبے ھو رہے ہیں ۔ عورت کے پردے اور خواتین کے دیگر مسائل کو اچھالا جا رہا ہے اور ان پر رکیک حملے ھو رہے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے مناھج اور کورسوں پر حملے کۓ جا رہے ہیں ، انسانی ھمدردی اور مدد و تعاون کے خیراتی اداروں پر انگشت نمائ کی جاری ہے اور حرمین شریفین والے ملک کے خلاف زبان درازیاں کی جا رہی ہیں اور فضول گوئ و ہرزہ سرائ ھو رہی ہے ۔ اللہ اس ملک کی حفاظت فرماۓ ۔۔ اور وہ بھی اس ملک کے ایسے معاملات میں ہرزہ سرائ کر رہے ہیں جو اسکے وجود اور ڈھانچے کا اھم حصہ ہے اور اس سارے حملے سے ان کی غرض صرف یہ ہے کہ حقائق کو مسخ کیا جاۓ ، انھیں توڑ موڑ کر پیش کیا جاۓ اور یہ سب اس لۓ کہ یہ ملک اسلام کا گہوارہ ہے اور یہی ایمان کی پہلی و آخری آماجگاہ ہے اور یہی ملک مہبط وحی و منزل قرآن ہے اور یہ ملک مسلمانوں کے مسائل اور انکے حقوق کے دفاع میں اپنا ایک بلند مقام رکھتا ہے ۔
اسلام دشمن حملوں میں سب سے بدترین چیز یہ ہے کہ اسلوب و طریقے ایسے ایسے اختیار کر رہے ہیں جو کہ انتہائ نفرت پیدا کر نے والے ہیں جس سے عالمی امن و امان اور ملکی امن و سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ مختلف تہذیبوں کے لوگوں کا باھم ملکر رہنے کا معاملہ کمزور پڑ رہا ہے ۔ مختلف اداروں میں ٹکراؤ پیدا ھو رہا ہے اور اس آویزش کے نتیجہ میں انسانیت باھم بغض و حقد میں مزید بڑھتی جا رہی ہے اور مختلف معاشروں میں نفرت کا انداز جنم لے رہا ہے ، فکر و نظر کی بنیادیں ھل رہی ہیں ، کذب و دروغ اور جھوٹ کو فروغ مل رہا ہے ۔ اور یہ سب مل کر بھی اس دین اسلام کو اللہ کے فضل سے کوئ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ بلکہ ان تمام معاندانہ کاروا‏ئیوں کے نتائج انکے ارادوں کے برعکس سامنے آ رہے ہیں ۔ لوگوں کی توجہ اسلام کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ بڑے زور شور کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنے لگے ہیں ۔ اور امت اسلامیہ و اسلام پر جتنے بھی بے بنیاد الزامات لگاۓ جا رہے ہیں ۔ یہ سارے کے سارے اللہ کے حکم سے اس امت کے اصولوں اور قواعد و ثوابت کی مضبوط چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ھو جائیں گے ۔ اور اسکی مضبوط دیوار کے سامنے بے کار ثابت ھونگے کیونکہ اس دین اور امت کا مزاج یہ ہے کہ مشکل اوقات میں امت اپنے دین کے معاملہ میں ڈگمگاتی نہیں اور حکام و محکومین یا امراء و رعایا سب خوب مل جل کر چلتے ہیں ۔ اور مشکل اوقات کا مطالبہ یہ ہے ک دوربین نگاھوں سے کام لیا جاۓ ، عقل و حکمت کو جوش و جذبات پر غالب رکھا جاۓ اور چھوٹے چھوٹے فوائد پر بھی نظر رکھی جاۓ تاکہ بڑی بڑی مصلحتیں ہاتھ سے نہ نکلنے پائیں اور چھوٹے چھوٹے مفاسد کا بھی تدارک کیا جاۓ تاکہ و بڑھتے بڑھتے قابو سے باہر نہ ھو جائيں ۔
دین اسلام ، امت اسلامیہ ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ممالک سب اس وقت اعدآء دین کے نشانے پر ہیں خصوصا انکی بنیادیں انکا ٹارگٹ ہیں
ان حالات میں مسلم امہ کا [ اسلامی تھذیبی پروجیکٹ ] بنانا اس کے تشخص اور قواعد و اصولوں کے تحفظ کا سبب بنے گا، اسکی خطرات کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ ھو گا اور اسے ناکام معرکوں ، نظرانداز کۓ جانے کے رویوں اور اسے بلیک میل کرنے کی کوششوں سے اللہ کے حکم سے بچاۓ گا جسکی بنیاد افراد امت میں سے بعض کا ذاتی سا کوئ قول و فعل ہے اور صرف اسی کے نتیجہ میں پوری امت مصائب و مشکلات کے طوفانوں میں گری ھوئ ہے جنکے نتائج کو اللہ تعالی کے سوا کوئ نہیں جانتا ۔ اسی طرح اس تھذیبی پراجیکٹ یا منصوبے سے امت کا داخلی محاذ محفوظ ھو گآ اسکی صفوں میں وحدت پیدا ھو گی پھر دنیا اس کے ساۓ میں خیر و برکت ، عطاء و سعادت ، ترقی و امن ، سلامتی ، معافی تلافی اور باہمی پیار و محبت کے مزے لوٹے گی پھر کوئ شر نہ رہے گا ، تشدد و دہشت گردی نہ رھے گی ظلم و تخریب کاری اور لوگوں کو ہراساں کرنے کا نام و نشان تک نہ رہے گا ۔
برادان ایمان ! امت کو اس تھذیبی منصوبے کی تیاری شروع کر دینی چاہیۓ ، اسکا وقت آ گیا ہے اور اس بات کا اھم ثبوت یہ ہے کہ اعداء دین نے یک جان ھو کر جعلی تھذیب اور دھوکہ دہی کے رنگوں کو کام میں لاتے ھوۓ اسلام اور مسلمانوں پر کچلیاں نکال رکھی ہیں ، کبھی یہ لوگ حقوق انسانی کے نام سے سامنے آتے ہیں کہیں انسداد دہشت گردی کا نعرہ لگاتے ہیں ، کبھی حریت و آزادی کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور کبھی مساوات کا رآگ الاپتے ھوۓ ملتے ہیں جبکہ کبھی عروج و ترقی اور روشن خیالی کے دعوؤں سے دھوکہ دیا جاتا ہے ، اور کہتے ہیں کہ ھم انسانیت کو جمود و پسماندگی سے خلاصی دلانا چاہتے اور اسے ترقی کے اعلی معیار کی زندگی اور تھذیب کے گہوارے میں بسانا چاہتے ہیں ۔ اور اسی سلسلہ میں اصلاحات کی ایک خطرناک نفسیاتی جنگ چیھڑ رکھی ہے جس سے وہ تو وہ خود امت اسلامیہ کے بعض شکست خوردہ ذھنوں کے مالک لوگ بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔
حقائق کو مسخ کرنا :
اے مسلم امہ ! ان دشمنان دین کے حملوں کی غرض روشن اسلامی چہرے کو داغدار کرنا ، اسکی چمکدار تصویر کو خراب کرنا اور ھماری اسلامی تھذیب و معاشرتی اقدار پر نقب لگانا ہے جو کہ اس گلوبل دور میں بھی اپنے تشخص کو سنبھالے ھوۓ ہے ۔ اعداء اسلام ان میں زھر بھرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی فکری و اخلاقی بالا دستی قائم کر سکیں اور امت اسلامیہ کو نیچا دکھا سکیں اور یہ حملے اسلامی عقائد کے لۓ بھی انتہائ خطرناک ہیں اور انتہائ افسوس کی بات ہے کہ بعض فکر و نظر اور ثقافت و کلچر کا دعوی کرنے والے بھی طوطے کی طرح انہی کے راگ الاپنے لگے ہیں جسکا نتیجہ یہ بھی ممکن ہے کہ امت اسلامیہ اس کی تاریخ اور اسکے ممالک پر حملے کرنے والے انکی تصویر کو بگاڑنے میں کامیاب ھو جائيں ۔ دشمن عمدا اس بات کے لۓ کوشاں ہیں اور یہ نادانستہ ہی انکی ہاں میں ہاں ملاۓ چلے جا رہے ہں اور یہ دراصل یا تو اسلامی تھذیبی پیغام سے ناآشنا ہیں یا پھر تجاھل عارفانہ سے کام لیتے ھوۓ بھولے بن رہے ہیں اور وہ اسلام کے جمالی پہلوؤں ، اس کے محاسن اور اخلاقیات کو صحیح طور پر پیش نہیں کر رہے ۔ تاکہ بحکم ارشاد الہی :
{ تاکہ جو ھلاک ھو ، دلیل پر ( یقین جان کر ) ھلاک ھو ، اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر ( حق پہچان کر ) زندہ رہے } ( الانفال : 43 )
مغربی حملوں کا جواب
اے امت اسلام ! ان ذرائع ابلاغ کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینا اب ہر غیرت مند مسلمان کا فرض بن چکا ہے خصوصا جبکہ انکی خطرناکی واضح ھو چکی ہے اور ان کی اس گہری سازش کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے ، اور کافر لوگ مسلمان قوم کے خلاف ایسی سازشیں تیار کر چکے ہیں کہ جنھیں اب غفلت و تجاھل ، عذر ر معذرت اور کسی دوسرے رنگ سے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انکا کوئ معقول سبب ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اگر ھم بعض امور سے دست بردار ھو جائیں گے اور اس حملے کرنے والوں کے دباؤ کی شدت قبول کر لیں گے تو پھر وہ امت اسلامیہ کے خلاف اپنی سازشوں سے باز آ جائيں گے یا اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کو کوشش کرنا چھوڑ دیں گے ۔
اگر آپ اسکی کوئ زندہ مثال دیکھنا چاہیں تو مسلمان کا سب سے بڑا مسئلہ ۔ مسئلہ فلسطین اس بات کا شاھد قوی ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کام کرنے والوں کی گندی ذھنیت اور عداوتی مزاج سخت طمع و لالچ والا ہے ۔
حتی کہ انھوں نے شرعی و قانونی جد و جھد آزادی اور سراسر جہادی سرگرمیوں کو بھی دھشت گردی قرار دے رکھا ہے ۔ اور سوابلین ( سوا ارب ) مسلمانوں کے جذبات کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور انھیں ایک زبردست دھچکے سے دوچار کر دیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک بالکل نیاخطرناک قرارداد پاس کیا گیا ہے ہے جسکی رو سے شہر قدس ( بیت المقدس ) کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ایسے پہلے کبھی نہیں ھوا اور اس سے اس شہر مقدس کی عربیت و اسلامیت بھی خطرے میں پڑ گئ ہے اور یہ انسانی تاریخی حقوق اور عالمی قراردادوں کو کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ اس حالات میں مسلمانوں کو چاہیۓ کہ اب فورا اٹھ کھڑے ھوں اور ہر سطح و عھدے کے لوگ قبلۂ اول اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معراج کے نقطۂ آغاز کو یہودی و صھیونی چنگل سے آزاد کروانے پر کمر بستہ ھو جائیں ۔اللہ اسکی آزادی کے مناظر سے ھماری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاۓ ۔
ظلم کی انتہاء
یہی وہ نقطۂ آغاز ہے کہ امت اسلامیہ اس اسلامی تھذیبی پلان و منصوبے کا آغاز کر دے اور وہ اعلی تھذیبی اسلوب کے ساتھ فعل و عمل سے امت اسلامیہ کےتشخص کو بحال کرے نہ کہ محض رد و عمل سے اور اور اس امت کو اسکے اصل کام پر لگا دے گآ کیونکہ یہ امت ، امت خیر و رحمت اور تمام جہانوں کیلۓ گواہی دینے والی ہے اور یہی منصوبہ اس امت کے تھذیبی کردار کو نمایاں کرے گا اس کے تاریخی حق کو منواۓ گا اور اسکے روشن چہرے کو پیش کرے گا اور اسلام و مسلمانوں کی جس تصویر کو انتہائ غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس کی تصحیح کرے گا ، اور یہ منصوبہ امت کی اس بات پر رہنمائ کرے گا کہ اسکے دین ، اسکے ضوابط و ثوابت ، اسکے ممالک اور مقامات مقدسہ پر جو حملے ھو رہے ہیں یہ کس قدر خطرناک ہیں ۔ اس کے حال و آحوال کی اصلاح کرے گا بحرانوں سے اسے نکالے گا اور اسکے اپنے رب پر مضبوط ایمان و عقیدہ پر آمادہ کرے گا اور بتاۓ گا کہ مسلمان قائدین اور عوام میں گہرا سچا تعلق ھونا چاہیۓ اور یہ وہمی معرکوں اور اپنے ذاتی اختلافات کو پھلانگ جانے پرتوجہ دلاۓ گا اور مسلمانوں کو اس طوفان بد تمیزی کے سامنے یکجان ھو کر کھڑے ھونے پر آمادہ کرے گا ، وہ طوفان جو کہ سب کو نگل جانے کیلۓ تیار کھڑا ہے ۔
اسی اسلامی منصوبہ کے ذریعے مسلمانوں کو شکار کرنےوالوں کی دراندازی کے راستے بند کرنے کی کوششوں میں ایک نظم و ضبط پیدا ھو گا ۔ اور کفار کے اس حملے کا ترکی بہ ترکی جواب دینا سخت ضروری ھو چکا ہے ۔ اور اس کے لۓ ایک سائینٹیفک ابلاغی پروگرام وضع کرنا ھو گا جو بہترین طریقہ سے اپنے مسائل کو پیش کرنے کی صلاحیت اور بات کرنے کا عمدہ انداز اختیار کرے جنکا پتہ اللہ تعالی کے ان ارشادات سے چلتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے :
{ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا } ( البقرہ : 83)
اور ایک جگہ فرمایا ہے :
{ اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیۓ } ( النحل : 125)
اور فرمایا ہے :
{اور میرے بندے سے کہہ دیجیۓ کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالیں ۔ } ( بنی اسرائیل : 53 )
دنیا کے ساتھ تھذیبی مذاکرات اور وہ بھی انہی کی زبان میں اور انکے سامنے حق کو واضح کرنا اور ان ظالمانہ حملوں کے خطرے کی انھیں اطلاع دینا اور انکے نتائج میں جو عالمی دشمنی کا ماحول پیدا ھو رہا ہے اسکا انھیں پتہ اور بغض و حقد کے لہجے اور نفرت کا پھیلنا اور انھیں انکی انفرادیت کے زعم کے خطرات سے آگاہ کرنا اور اسکے نتیجے میں انسانیت جن مصائب و آلام میں مبتلا ھو رہی ہے یہ بات انکے ذھن میں بٹھانا ضروری ھو گیا ہے۔
اسلامی ذرائع ابلاغ کا فقدان
حقیقت یہ ہے کہ بامقصد اسلامی ذرائع ابلاغ کی عدم موجودگی سیٹلا‏ئٹ چینلز اور انڑنیٹ کا وجود دنیا میں صحیح بات پہونچانے اور بامقصد مذاکرات کا سلسلہ چلانے کی راہ میں ایک رکاوٹ بنے ھوۓ ہیں کیا امت اسلامیہ کے ذرائع ابلاغ سے متعلقہ اور کاروباری و مالدار لوگ اپنے کردار کی حقیقت اور اس کے تھذیبی پروگرام میں انکے حصے کی واجبی ضرورت کو سمجھ اور محسوس کر سکتے ہیں ؟ تاکہ وہ اپنے دین و وطن اور قوم و امت کا دفاع کر سکیں اور کیا علماء دین اور مبلغین اسلام حق و ثوابت اسلامیہ کو بہترین طریقے سے پیش کریں گے ؟ جبکہ مبادیات و اصول ، مقاصد و مصالح ، اخلاقی قدریں ، اسلامی آداب ، شرعی و قانونی امور اور اسلام کے جمالیاتی پہلوؤں کو بھی نظرانداز نہ کیا جاۓ بلکہ ان سے بھی باقاعدہ ربط و ضبط قائم رکھا جاۓ ۔ کوششوں کو نظم و ضبط سے بروۓ کار لایا جاۓ ، دلوں کو صاف کیا جاۓ ، شر کے سایوں سے دور رہا جاۓ ، ترجیحی امور کا خیال رکھا جاۓ اور نۓ نۓ حالات و تغیرات سے حسن معاملہ کیا جاۓ اور تمام وسائل و اسالیب کو بروۓ کار لایا جاۓ تا کہ حجت قائم ھو ۔
حق ھمیشہ غالب رہتا ہے ، اس پر کوئ چیز غالب نہیں آ سکتی اور چودھویں کے چاند کا طلوع ھو جانا آپ کو زحل و مشتری جیسے تمام ستاروں سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
{ جھاگ تو ناکارہ ھو کر چلا جاتا ہے لیکن لوگوں کو نفع دینے والی جو چیز ہے وہ زمین میں ٹھری رہتی ہے ۔ اللہ تعالی اسی طرح مثالیں بیان فرماتاہے } ( الرعد : 17)
اسلامی تھذیبی منصوبے کے اوصاف
برادران اسلام ! اسی تھذیبی پروگرام یا منصوبے کی بنیادیں اسکے سنگ میل اور واضح خطوط جو مایوس دنیا کو اس تلخ زندگی سے خلاصی کا راستہ دکھلا سکتے ہیں یہ ہیں کہ یہ نظام و منصوبہ ربانی ، عالمی ، سلفی ، اخلاقی انسانی ، تھذیبی ، مثبت ، شامل و کامل اور واقعی ہے اس میں قدیم و جدید ھم آھنگ ہیں ، اس میں مصداقیت ہے بلاوجہ معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہیں ہے ، اس میں شکست خوردگی نہیں ، اس میں صفائ و شفافیت ہے عدل و انصاف اس کا ھراول دستہ ہے ، عدل گستری اسکا حدی خواں ہے اور معافی تلافی اس کا اسلوب ہے ، اور یہ امت کی قوتوں کو مجتمع کرنا کا کام کرتا ہے انھیں تباہ نہیں کرتا ، یہ نظام خالق کائنات کیلۓ اخلاق کی راہ چلتا ہے اور مخلوق کے ساتھ نرمی اور رحم و کرم کا رویہ اپنانے کا سبق دیتا ہے ۔ یہ عقل و حکمت سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے اور بیھودگی و تشدد سے باز رکھتا ہے ۔ اور اسی نظام کو اپنانے سے امت اسلامیہ اپنا قائدانہ ثقافتی و تھذیبی مقام حاصل کر سکتی ہے ، اسی سے اسے اپنی تاریخی عظمت رفتہ دوبارہ مل سکتی ہے اور دم گھونٹنے والے ان بحرانوں سے نجات بھی اسی کو اپنانے سے ملے گی اور امت کی یہ زبوں حالی بھی ان شاء اللہ اسی سے اصلاح پذیر ھو گی ۔
پہلا قدم اور آغاز
برادران اسلام : اس تھذیبی نظام کی طرف بڑھنے کیلۓ پہلا قدم یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنا محاسبہ کریں ، اور طویل وقفہ کرکے اپنے حسابات کی درستگی کریں ، اپنے عقائد میں واقع ھو جانے والے بگاڑ کی اصلاح کریں ، اخلاق کی تعمیر کریں ، عادات کو سنواریں ، اتباع و اطاعت کو شعار بنائيں اور بدعات پر عمل پیرا ھونے سے باز آئيں اور امت میں عقیدہ و منہج کے جن شعبوں میں کوئ نقص و کمی آ گئ ھے اس کامداوا کریں ۔ اور امت کو چاہیے کہ قرآن و سنت کے نور کو اپنائیں ، قرون مفضلہ کا رویہ اختیار کریں اور مخصوص ایام اور راتوں میں محفلیں نہ جمائیں اور انکے لۓ عبادات نہ گھڑیں جو ھمارے سلف صالحین امت میں موجود نہیں تھیں جیسا کہ بعض لوگ رجب کی ستائیس تاریخ کےبارے میں اعتقاد رکھتے ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : [ ماہ رجب کی فضیلت اور ستائیس تاریخ یا کسی دوسری تاریخ کے بارے میں کوئ صحیح حدیث نہیں ملتی کہ جسے دلیل بنایا جا سکتا ھو ، اور اگر کوئ حدیث فضیلت میں ثابت بھی ھو تو اس رات کو کسی ایسی عبادت کے ساتھ خاص نہیں کیا جا سکتا جو نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کی ، اور اگر اس میں کوئ نیکی وخیر اور ثواب و بھلائ ھوتی تو وہ ھم سے سبقت لے گۓ ھوتے ۔ ]
ایسے ہی خیالات کا اظہار محقیقین کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، امام ابن رجب ، اور امام شوکانی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
اے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ ایک بہترین موقع ہے کہ پہلے اپنی ذات سے مذاکرات کیجیۓ اور یہی دورسروں کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد ہے اور جب تک امت اپنے اور اپنے رب کے مابین تعلقات کی اصلاح نہ کرلے گی ، اور جب تک یہ اپنے معاملات آپس میں درست نہیں کر لیں گے اور کتاب و سنت کی روشنی میں انھیں نپٹا نہیں لیں گے تب تک یہ دوسروں کے ساتھ بھی صلح نہیں کر سکتے چہ جائیکہ وہ اس صلح کو پوری دنیا کے سامنے پیش کر سکیں ۔
امت اسلامیہ کے اس تھذیبی نظام یا پروگرام کی اھم صفات میں سے صدق ، تجویز و فکر کی وضاحت اور راۓ و نظر میں صراحت ہیں اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ یہ تعصب و نفرت ، تشدد اور بغض و حقد کی زبان سے ھوں بلکہ یہ رحم و کرم کے انداز اور نرمی و شفقت کے رنگ میں ھونے چاہیۓ اور عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیۓ چاہے سامنے والا ھمارا مخالف و دشمن ہی کیوں نہ ھو ، چنانچہ ارشاد الہی ہے :
{ کسی قوم کی عداوت تمھیں خلاف عدل پر نہ ابھارے ، عدل کیا کرو جو کہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے ۔ }
( المائدہ : 8 )
اس وقت امت اسلامیہ کے لۓ موقع ہے کہ وہ اپنے عقائد اور موروثی تھذیبی امور کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور موجودہ دور کے فتنے اور آزمائشیں اسے اعلی مقام پر فائز ھونے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے پائیں ، مصائب و مشکلات میں انعامات پوشیدہ ھوتے ہیں اور آزمائشیں اور تنگیاں اپنے دامن میں نعمت اور نوازش لے کر آتی ہیں ۔
سنجیدگی سے عمل شروع کر دو اور تعمیری کوششوں کا آغاز کر دو اس تھذیبی منصوبے کا نظام کار بنانے ، اس پر ریسرچ کرنے اور عسکری ریسرچ کے مراکز قائم کرو جو اسلام کے خلاف اندھا دھند حملوں کا دور رس توڑ پیش کریں ۔ دین کی پورے خلوص و محبت سے مدد کرنے والے لوگوں کی مدد اللہ تعالی خود فرماتے ہیں ۔ اسی طرح ہی اپنی امت ، معاشرے اور اپنے بلاد اسلامیہ کی خدمت و مدد کرنے والوں کا بھی اللہ تعالی حامی و ناصرہے اور وہ بڑا صاحب جود و سخا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ، ارشاد الہی میں حضرت شعیب علیہ السلام کے الفاظ میں ہی ھم بھی کہتے ہیں :
{ میرا ارادہ تو حسب استطاعت اصلاح کرنے کا ہے ، میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے ، اسی پر بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ھوں ۔ } ( ھود : 88

<photo id="1" />
<photo id="2" />

No comments:

Post a Comment