Sunday, February 23, 2014

اودہ میں زبان وادب اور تھذیب کا ایک جائزہ

Paper Presentation

On

اودہ میں زبان وادب اور تھذیب کا ایک جائزہ
2014




Submitted by: Dr Mohammad Salman Khan
On International seminar organized
By Lucknow University 8-10 feb 2014
                         




Assistant Professor
Department of Arab Culture
Faculty Of Art
Mumtaz P G College lucknow

حامدا ومصلیا :
گرامی قدر صدر محترم  اور ملک و بیرون ممالک سے تشریف لائے ھوے حضرات
اودھ میں زبان اور تھذیب کا جائزہ
          ۱۷۲۲ء میں اودھ کی حکومت کے قیام کے بعد سیاسی ، تہذیبی اور فوجی اہمیت کے علاوہ ادبی حیثیت سے بھی اس علاقہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی، اودھ میں اودھی شاعری کو غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی اور جن شعراء نے اس زبان میں اپنی تخلیقات پیش کی تھیں ان میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان صوفیائے کرام اور علماء بھی شامل تھے اس سلسلہ میں ملا داؤدؔ ، قطبنؔ ، ملک محمد جائسیؔ اور عثمانؔ وغیرہ شعراء کے نام لئے جا سکتے ہیں جو خالص اودھی کے شعراء تھے اور جن کا کلام اس دور میں بھی مقبولیت پاچکا تھا۔
اودھ اور خاص کر لکھنؤ کی سماجی زندگی اور تہذیبی عناصر میں جو رجحانات ابھر رہے تھے اس نے یہاں کی ادبی فضا کو غیر معمولی ترقی دی اس سلسلہ میں یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ شجاع الدولہ یا آصف الدولہ کے عہد میں خانِ آرزوؔ ، سوداؔ ، میرؔ ، میر سوزؔ ، جرأتؔ ، میر حسنؔ ، مصحفیؔ ، انشاءؔ ، قائمؔ ، رنگینؔ وغیرہ جو اہم شعراء دہلی سے اودھ آچکے تھے انھوں نے یہاں کی فضا سے اثر لے کر شعر کے نئے رجحان کی بنیاد ضرور قائم کر دی تھی
1857ء تک اودھ میں اردو اور فارسی نثر نگاری اتنی مقبولیت اور عوامی ابلاغ وترسیل کا ایسا ذریعہ حاصل کرچکی تھی کہ اس کی تفصیلات کا تجزیہ کرنا مفید نہ ہوگا، البتہ سعادت خاں ناصر کے تذکرۂ خوش معرکہ زیبا کے بعض پہلوؤں کا مطالعہ ٖضروری ہے جس کے سلسلہ میں مؤلف نے لکھا ہے کہ یہ اردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ ہے۔یہ تذکرہ 1848 م  میں لکھا گیا اور غالباًاُنھیں اُن تذکروں کا علم نہیں تھا جو اس سے پہلے اردو میں مرتب کئے گئے تھے البتہ اودھ کے تذکرہ نگاروں میں اس لحاظ سے انھیں اولیت ضرور حاصل ہے اس کے علاوہ ان کی نثر میں جو دلکشی،سادگی اور لطافت ہے وہ کسی دوسرے تذکرے میں نہیں پائی جاتی ، مثلاًشیخ بقااللہ بقاؔ سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’وہ جملہ اسباب خانہ ،معبدخانہ ۴۰؍روپے میں بیچ کر ،غلہ خرید کرکے ایک کشتی میں رکھ کر عازم بیت اللہ ہوئے وقت رخصت مرزا جعفر ملاقات کو آئے ،مرزا اسوقت دربار جارہے تھے ، ایک ملازم کو بھیجا کہ وہ ان کا مکان دیکھ آئے جہاں فروکش ہیں ،دوسرے روز پانچ سوروپیہ زادوراحلہ کے واسطے بھیج لیکن کشتی ایک دن قبل روانہ ہوچکی تھے.... سبحان اللہ! کیا پاکبازی تھی کہ امیروں کے بھی احسان کا انتظار ناگوار تھا۔‘‘
1857 کے بعد اودھ کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی ایک جھلک
۱۸۵۷ ؁ء کے بعد ہندوستانی معاشرے کے ہر شعبہ میں کسی نہ کسی شکل میں تغیر وتبدیلی کے اثرات نظر آنے لگے اسی لئے اسے نشاۃ الثانیہ کی منزل قرار دی جاتی ہے لیکن لکھنؤ کی معاشرتی زندگی میں عوام اس انقلاب کو اپنانے کے لئے آسانی سے تیار نہ تھے چنانچہ وہ اپنی روایات کے تسلسل کو چھوڑنے کے لئے بڑی کشمکش میں مبتلا تھے وہ چاہتے تھے کہ اپنی خوشحالی، امارت دولت وثروت کو سینے سے لگا ئیں رہیں چاہے وہ محض خارجی اور مصنوعی طور پرشان وشوکت کا احساس دلائے ، یہی تقاضے تھے جن کے تحت نہ تو وہ سرسید تحریک میں شامل ہونے کو تیار تھے نہ شعر وادب کے ان جدید رحجانات کو اپنانا چاہتے تھے جو مغربی تہذیب علوم کے ذریعہ اثر انداز ہورہے تھے اور جنہیں محمد حسین آزاد اور حالیؔ قومی زندگی کے ارتقا کے لئے ضروری سمجھتے تھے ، یہی عناصر تھے جن کے نتیجہ میں لکھنؤ کی نثر میں ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد بھی انہیں داستانی تصانیف کو مقبولیت حاصل رہی جن میں خیالی اور غیر حقیقی زندگی چھائی ہوئی تھی ، جن میں مافوق الفطرت عناصر انسانی ذہن کو جنون ،پریوں ،طلسماتی فضا توہم پرستی اور جادو ٹونے سے الگ کرنے کو تیار نہ تھی اور نہ اس مقفی ٰ مسجع اسلوب کو غیر ضروری سمجھ رہا تھا جو جدید تقاضوں کے زیر اثر مفید نہ تھا۔ ان نثری داستانوں میں الف لیلہ کے تراجم ،ہزارداستان اور داستان امیر حمزہ وغیرہ کے ناموں سے بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوئیں۔ 
انگریزی تہذیب ،انگریزی تعلیم وتربیت اور سب سے بڑھ کر انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں ،یہ وہ اثرات تھے جو رفتہ رفتہ اودھ کے معاشرہ کے ہر شعبہ پر حاوی ہوتے جارہے تھے اور نثر نگاری اور انشا پردازی کے رحجانات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، ممکن ہے شروع میں لکھنؤ کے علمی وادبی حلقہ نے اسے پسندنہ کیا ہو لیکن اس سے اسالیب اور پیراےۂ اظہار کو جو وسعت حاصل ہوئی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، سائنس کے نظر یات کی اشاعت کے لئے کتابیں ترجمہ کی گئیں شعر وادب اور فلفسیانہ موضوعات کے مطالعہ کا شوق ہوا ، تذکروں میں تنقیدی پہلو شامل کرنے پر توجہ کی جانے لگی ، قانونی اصطلاحات سے متعلق کتابیں لکھی گئیں اور انگریزی حکومت کے احکام اردو میں بھی جاری ہونے لگے۔
۱۸۵۷ء کے بعد جہاں معاشرتی زندگی اور سیاسی تصورات میں تغیرات پیدا ہوتے جارہے تھے وہیں دوسری طرف اودھ میں  نثر نگاری کا ایک مخصوص رحجان ابھر کر سامنے آگیا تھا جس کے ذریعہ اسلوب میں بھی تبدلیاں ہورہی تھیں اور موضوعات میں بھی وسعت پید کرنے کا احساس اہمیت حاصل کررہا تھا البتہ تقریباًسبھی تخلیقات میں لاشعوری طورپر یہ جذبہ شامل تھا کہ یہاں کی تہذیبی روایات کے امتیازی پہلوؤں کو ایسی مستحکم شکل دیدی جائے کہ آنے والی نسلیں ان پر فخر کرسکیں ، دراصل یہاں کے اخبارات ،ناولوں کے کردار اور عوام کے آداب وتہذیب کے مخصوص عناصر کے ذریعہ وہ غلامانہ ذہنیت اور مغربی معاشرے کے خلاف ایک طرح سے احتجاج کا اظہار کرہے تھے جس کی آواز پڑھنے والوں کے ذہنوں کو متاثر کررہی تھی، ظاہر ہے غیر ملکی حکومت کے شدائد اور اس کے خطرات کا اظہا ر کھل کر کرنا ممکن نہ تھا اس لئے فنکار نئی شاہراہ کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے عوام کو ان قدروں سے رشتہ قائم رکھنے کی طرف متوجہ بھی کررہے تھے جو ان کو ورثہ کے طور پر ملاتھا ، انہیں پُرانے نقوش مٹنے کا خدشہ بھی تھا لیکن وہ آنے والے دور سے یکسر بے توجہی بھی نہیں برت سکتے تھے یہی کشمکش تھی جس کے تحت اودھ کی نثری تخلیقات میں سر سید تحریک کو بھی غیر صحت مند سمجھا گیا اور حالیؔ کے شعر وادب سے متعلق نظریات کو بھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ مغربی علوم کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہو، چنانچہ جیسے جیسے مطالعہ کا ذوق بڑھتا گیا سیاسی تغیرات کے ذریعہ ذہنوں میں تبدیلی پیدا ہونے لگی۔ اس انداز سے نثرنگاری کے موضوعات ومسائل میں بھی وسعت پیدا ہونے لگی اور بیسویں صدی کے آتے آتے افسانوی ادب، انشائیہ نگاری ،تنقیدی اسالیب ،سائنسی موضوعات سفرنامے فلسفہ، تاریخ ،سوانح عمری ،اور بہت سے دوسرے شعبوں سے متعلق مضامین وکتابوں کی اشاعت ہونے لگی اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب اگراردو نثرنگاری اور نثری تخلیقات کے سرمایہ کے لحاظ سے دوسرے مراکز کو اہمیت حاصل ہے تو اودھ کے فنکاروں کی خدمات کو ان کے مخصوص امتیازی رحجانات کے پیشِ نظر اہمیت دی جاتی ہے ۔
اودھ میں عربی علوم وفنون کے مشاھیر علماء
 اودھ کے ادبا اور علما کی اگر عربی زبان وادب میں خدمات کا جائزہ لیا جاے تو بہت سے نام لئے جا سکتے ہیں اور انکی خدمات پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ھے لیکن اس مختصر وقت میں میں چند معروف ادباء کا ذکر کرونگا


مولانا آزاد بلگرامی اورعربی زبان وادب میں ان کی خدمات 
             مولانا آزاد بلگرامی نے عربی اور فارسی میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے اورنظم ونثر میں کافی علمی ادبی سرمایہ یادگار چھوڑاہے۔ صاحب اتحاف النبلاء نے ان کے عربی اشعار کی تعداد دس ہزار ابیات بتائی ہے۔ عربی زبان وادب میں مولانا آزاد بلگرامی کی عظیم خدمات کا جائزہ بھی لیا گیاہے جن میں ڈاکٹر زبید احمد، ڈاکٹر فضل الرحمن ندوی شامل ھین ، ڈاکٹر زبید احمد نے اپنی کتاب ’’The contribution of India to arabic literature -lahore 1968میں آزاد ز بلگرامی کی عربی زبان وادب کی خدمات پر سیر حاصل تبصرہ کیاہے۔مذکورہ عربی اور اردو میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اردو ترجمہ پاکستان سے اور عربی ترجمہ بغداد سے شائع ہوا ہے۔ 
ڈاکٹر فضل الرحمن ندوی نے آزاد بلگرامی کی گرانقدر تصنیف ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ کیصحیح وتنقیح کاکام نہایت دلسوزی سے کیا اورعلی گڑھ سے دو جلدوں میں شائع کیا۔ 
جناب عبدالمنان، ڈاکٹر زیتون بیگم، جناب عبدالمقصود، محمد الشلغامی، اور جناب عبدالسلام فہمی کی تحقیقی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ آزاد بلگرامی کی بزرگی اور فضیلت کا اندازہ بھی اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ایسے کتب خانے کے مالک تھے، جس میں پچیس ہزار جلد کتب تھیں اس سلسلے میں حافظ احمد علی شوق رام پوری کا یہ بیان دل چسپی سے خالی نہیں ہے وہ لکھتے :
’’بلگرام میں مولوی غلام علی آزاد کا کتب خانہ بھی بڑی نمود کا تھا، مشہور ہے کہ پچیس ہزار جلد تھی ان کی درسگاہ کی ٹوٹی پھوٹی کھنڈر ابھی بھی موجود ہیں، ان کا مکان سلامت ہے صر ف تین الماریاں ردی سے بھری ہوئی پائیں جس میں دو دو چار چار ورق مختلف کتابوں کے پڑے ہوئے ہیں، دس بارہ عربی کے دیوان بھی ہیں جوعام طور سے ہندوستان میں نہیں ملتے۔
علاوہ ازیں مختلف تذکروں میں بھی آزاد بلگرامی کی علمی فضیلت ، عربی وفارسی میں مہارت اور مذکورہ زبانوں میں ان کی خدمات کا ذکر بڑے اچھے پیرایہ میں ملتا ہے، ان تذکروں نویسوں نے ان کے علمی فضل اورکارہائے نمایاں کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کے ساتھ ان کے اعلیٰ اخلاقی اور انسانی فضائل کا ذکر بھی کیاہے۔ ان کی مشہور کتاب ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ کا شہرہ سرزمین عرب میں بھی اتنا ہی رہا ،جتنا کہ سرزمین ہند میں، مسقط کے امام نے اس کی تعریف کی ہے اوریہ کتاب ہندوستان کے علاوہ مصر سے شائع ہوئی ہے۔ 
 (سید غلام علی آزاد سبحۃ المرجان میں اپنے بارہ میں لکھتے ہیں :
’’وما لی فی الھندی دیوان لکی ما حر بالشعر الھندی ودقائقہ ، وراتع نظری فی نرجسہ وشقائقہ .‘‘
لیکن ان کی ہمہ گیر شخصیت کا دار ومدار ان کی عربی تالیف وتصنیف پر ہے، وہ بجا طور پر عربی زبان کے سب سے بڑے ہندوستانی شاعر مانے جاتے ہیں، ان کی عربی اشعار کی تعداد گیارہ بارہ ہزار سے کہیں زائد ہے، عربی تصنیفات میں تسلیۃ الفوائد ، مرأۃ الجمال ، سبحۃ المرجان اور مظہر البرکات وغیرہ ہیں، ان کے علاوہ دس مکمل دیوان جن میں سے دو دیوان تین ہزار اشعار پر مشتمل انھوں نے مدینہ منورہ بھیجے تھے، وہاں کے اہل علم نے ان کی تحسین وآفریں کی اور شاعر کی دلی آرزو کے مطابق گنبدِ خضراء کے مکین علیہ الصلاۃ والتسلیم کے حضور میں پیش کردئیے۔
نواب رضا حسن خاں کاکوری (لکھنؤ
رضا حسن خاں کا آبائی وطن کاکوری (لکھنؤ) تھا، ان کے دادا نواب عاشق علی خاں بہادر (متوفی) متخلص بہ بسملؔ بنگالی کی ایشاٹک تک سوسائٹی کے رفیق تھے، اس طرح رضا حسن خاں کاکوروی کے معزز ومحترم اور علم وادب سے آراستہ خاندان کے ایک فرد تھے، انھوں نے کانپور ہی میں تعلیم حاصل اور پندرہ سال کی عمر میں متداول سے فراغت کرلی، اس کے بعد وہ اپنے والد بزرگوار کے پاس کلکتہ چلے گئے، وہاں انھوں نے عربی کے ایک متبحر عالم سید عبد الرزاق صاحب کے زیر نگرانی زبان وادب کا مطالعہ شروع کیا، سید صاحب موصوف نے رضا حسن خاں کی اس سلسلہ میں کافی اعانت کی اور انھوں نے نے بھی اپنی محبت وکاوش سے عربی زبان پر قدرت اور اس کا مذاق سلیم بہت جلد حاصل کرلیا، پھر تدریس وتالیف میں مشغول ہوگئے، اگرچہ اس وقت ان کی عمر کے سولہ سال بھی پورے نہ ہوئے تھے۔
۱۹؍ ربیع الآخر 1244 ؁ھ کو کلکتہ میں انتقال ہوا، وہ کم سنی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، عیسوی سنہ تاریخ کے حساب سے بوقت وفات وہ ۱۹؍ برس سے بھی کم عمر کے تھے، لیکن مدح وثناء کی روشن وتابناک میراث چھوڑ گئے۔
رضا حسن خاں عربی وفارسی زبانوں کے ایک ذہین وطباع اور زود گو شاعر تھے، رضاؔ تخلص کرتے تھے، عربی کے دو قصیدے ایک انموذج الکمال اور دوسرا الامیۃ الہند مشہور ہیں، انموذج الکمال شیخ شرف الدین البوصیری (۹۵۔۱۲۱۳ ؁ء) کے لامیۃ العجم کے مقابلہ میں ہے، رضاؔ حسن خاں کا لامیۃ الہند اچھا خاصا طویل قصیدہ ہے، وہ ایک سو سولہ ابیات پر مشتمل ہے، لیکن باوجود اس طوالت کے صف ایک ہی رات کی فکر کا ثمرہ ہے، اور خوبی یہ ہے کہ قوافی کی تکرار اور مبتذل مضامین سے پاک وصاف ، خود شاعر نے لامیۃ الہند کے ان صفحات سے متصف ہونے کا دعویٰ اپنے الفاظ میںیوں کیا ہے :
’’وقصیدتی ھذہ سالمۃ من تکرار القوافی وابتذال المضمون ونقص المصاریع فی الفیافی وکان عملھا فی لیلۃ واحدۃ من لیالی العشرۃ الاولی لشھر صفر۔‘‘
یہ قصیدہ 1242 ؁ھ میں شاعر کی وفات سے دو سال قبل کلکتہ سے شائع ہو چکا تھا، اس کے نسخے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں، رضا حسن خاں کا یہ لامیۃ الہند ان کی عبقریت ، قادر الکلامی اور زود گوئی کا بین ثبوت ہے، نمونہ کے طور پر چند اشعار پیش خدمت ہیں :
الفقر فی القصر الغفران فی الزلل             والعجز فی العز کالکتمان للخلل
إصبر علی مھلکات الدھر مؤتلفا                فالصبر افجضل للاتیان بالجذل
الصفوفی العیش کالعنقاء منعدم                  النفس قد جبلت منہ علی العزل
فالعیش اقصر من أن تطمئن بہ                   إن المرارۃ قد حاططت علی العسل
لا لھف کم ساعۃ فی العمر لی تلفت               والعیش یصحبنا فی ابھج المرفل
طوبی لمن عاش والأفقار موطنہ                 والفقراء مفخرہ فی الحال والقبل
محمد افضل الانسان قاطبۃ                        فخر الملائک ، زین العقل والرسل
لہ العطاء بلا نقص ولا خفض                     لہ السخاء بانواع من المثل

حضرت مولانا علی میاں ندوی
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے ایک بلند پایہ ادیب، ایک ممتاز نقاد، محقق اورمبصر کی حیثیت سے بھی دنیائے ادب میں اپنی ایک مخصوص پہچان بنالی تھی، حضرت مولانا نے اپنے والد ماجد مولانا حکیم سید عبد الحئی صاحبؒ کی تصنیف ’’گل رعنا‘‘ کے چھٹے ایڈیشن میں بے حد اہم پیش لفظ لکھ کر جوادبی کارنامہ انجام دیا ہے وہ قابل ستائش ہے، یہ پیش لفظ در اصل حضرت مولانا کا تحریر کردہ وہ مضمو ن ہے، جو پہلے شائع ہوچکا تھا۔ اوراس میں مولانا حسین احمد آزاد کی تصنیف ’’آب حیات‘‘ کی ان کوتاہیوں اوراس کے متعدد بیانات، روایات اور حوالوں کی تاریخی ودستاویزی صحت وصداقت ثابت نہ ہونے سے متعلق ایسے تاریخی ثبوت پیش کئے گئے تھے، کہ جن کا ریاضی کے نتائج کی طرح انکار ممکن نہیں۔
حضرت مولانا علی میاںؒ کاسب سے بڑا کارنامہ اقبالیات پر ان کی گراں مایہ عربی تصنیف ’’روئع اقبال‘‘ ہے، جس کااردو ترجمہ ’’نقوش اقبال‘‘ کے عنوان سے مشہور ادیب ومحقق پروفیسر شمس تربیز خاں صاحب مرحوم نے کیا ہے اورترجمہ کے فنی محاسن کا پورا حق ادا کیا ہے، حضرت مولانا کی اس تصنیف سے صرف دنیائے عرب میں ہی نہیں بلکہ بر صغیر ہند وپاک کے ادبی حلقوں میں بھی انہیں زبردست قدرومنزلت اورشہرت ونیک نامی حاصل ہوئی۔ علامہ اقبالؒ حضرت مولانا کے سب سے پسندیدہ شاعر تھے، اور ان سے انسیت اورورافتگی کا یہ عالم تھا کہ سولہ سال کی عمر میں ہی اقبال کی نظم ’’چاند‘‘ کاعربی میں ترجمہ کیا اور جون ۱۹۲۹ء ؁ میں لاہور میں ان سے ملاقات کے دوران انہیں جب دکھایا تووہ حیرت زدہ رہ گئے۔ اس کے بعد ۲۲؍ جون ۱۹۳۴ء ؁ کو علامہ اقبال سے حضرت مولانا کی دوسری ملاقات ہوئی اوران کے افکار وخیالات کو جاننے کا موقع ملا۔ جس سے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے اور علامہ اقبال کے خیالات میں بڑی یکسانیت ہے۔ اس سلسلہ میں موصوف کا یہ اعتراف قابل ذکر ہے :
’’میری نشوونما اس عہد میں ہوئی جب اقبال کا فن شہرت کے بام عروج پر پہونچ چکا تھا، سب سے بڑی چیز جو مجھے آپ کے فن کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا بین امتزاج ان کی شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا ان کے معاصرین میں کہیں پتہ نہیں لگتا میں بھی اپنی طبیعت اورفطرت میں انہیں تینوں کا دخل پاتا ہوں، میں ہراس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیارانہ بڑھتا ہوں، جوبلند نظری، عالی حوصلگی اوراحیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیرکائنات اورتعمیر نفس وآفاق کے لیے ابھارتاہے۔ میری پسند اورتوجہ کامرکز وہ اس لیے ہیں، کہ وہ بلند نظری، محبت اورایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدہ، دعوت اورپیغام رکھتے ہیں اورمغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقدر اور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمت رفتہ اورمسلمانوں کے اقبال گزشتہ کے لیے سب سے زیادہ فکر مند ،تنگ نظر قومیت ووطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت واسلامیت کے عظیم داعی تھے۔
حضرت مولانا علی میاںؒ علامہ اقبال کے معترف بھی تھے اوربے باک ناقد بھی تھے۔ تبھی حضرت مولانا نے انتہائی صاف گوئی سے ان کے بارے میں اپنے ان خیالات کابھی اظہار کردیاتھا:
’’میں اقبال کو کوئی معصوم ومقدس ہستی اورکوئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اورنہ میں ان کے کلام سے استناد اورمدح سرائی میں حد افراط کو پہونچا ہواہوں، جیسا کہ ان کے غالی معتقدین کا شیوہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ وفلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں، جن سے اختلاف کرنا مشکل بھی ہے میں بعض پرجوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم وحقائق تک ان کے سوا کوئی پہونچا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ان کی ناقد شخصیت میں ایسے کمزور پہلوبھی ہیں، جوان کے علم وفن سے میل نہیں کھاتے اور جنہیں دور کرنے کا موقع انہیں نہیں ملا۔‘‘

حواشی 
(1)تذکرۂ ریاض الفصحا، ۳۲۶ انجمن ترقی اردو ہند
 (2) نورتن ۵ مرتبۂ خلیل الرحمن داؤدی ،مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۲ ؁ء
(3) ریاض الفصاحہ انجمن ترقی اردو ہند
 (4)  ہماری داستانیں 
 (5) ترقی پسندادب 
(6) اردو کی نثری داستانیں، ص: ۵۴۷
 (7) اردو کی نثری داستانیں، ص: ۵۶۹
(8) تذکرہ طبقات سخن ، ص: ۳۰۔ مرتبہ نسیم اقتدار علی ۱۹۹۱ ؁ء 
(9) بحوالہ حقائق ، ص: ۲۷۵ ((2)  بحوالہ لکھنؤ کی تہذیبی میراث، ص: ۹۷ ، صفدر حسین بارگاہِ ادب لاہور ۱۹۷۵ ؁ء 
 (10)  اردو کی نثری داستانیں، ص: ۴۷۸
(11) تاریخ کتب خانۂ عالیہ دارلریاسۃ مصطفیٰ آباد عرف رام پور(قلمی) ص ۱۱مجزونہ کتب خانہ رضا رام پور نمبر ۱۴۰(فہرست مخطوطات اردواز مولانا عرشی ص ۲۶۹
 (12) مولوی عبدالجبار ملکاپوری، محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن جلد ۱ ص ۲۸۳۔۲۸۴)
(13) علامہ شمس بریلوی، مقدمہ ترجمۂ مآثر الکرام (اردو) ص ۹۰ مطبوعہ کراچی۔
(14) تذکرۂ مشاہیر کاکوری ص: ۱۶۸۔ محمد علی حیدر، اصح المطالعہ لکھنؤ، ۱۹۲۷

’’The contribution of India to arabic literature -lahore 1968
 By Dr zabeed ahmad(15)
    Nazir Ahmad J-R-A.S.B. New Serial Vol. Xlll P.C. XXX =1917 Wajahat Husain -R-A.S.B.Vol. ll No2 1936
(16) نقوشاقبال ص ۳۴۔۳۳)
(17) مولانا عبدالحئی نزہۃ الخواطر ۶؍۲۰۲


Dr. Mohammad Salman Khan
Astt. Professor, Dept of Arab Culture
Mumtaz PG College Lucknow (India)
Email: drsalmannadwi@gmail.com
Mob: 09936244415

Postal Address: 536/ 417 Makka Gunj Khadra Near Shia PG College Lucknow. India


No comments:

Post a Comment