Research Paper
On
Impact
of Oriental Studies on Indo-Arab Relations.
عرب و ہند تعلقات پر مشرقی علوم و فنون کے اثرات
2014
Submitted by: Dr Mohammad Salman Khan
Assistant Professor
Department of Arab Culture
Faculty Of Art
Mumtaz P G College lucknow
تمہید
عرب اور ہندوستان کے تعلقات پر مشرقی علوم کے اثرات یہ ایک
ایسا موضوع ھے جس پر بہت تحقیق کی ضرورت ھے ، کیونکہ یہ دونوں ممالک آزاد اور غیر
جانبدار ہیں ، اور دونوں کا علمی، سیاسی اور سماجی تعلق زمانہ قدیم سے رہا ہے ، بڑے بڑے محققین اور اسکالرس کا ماننا ھے کہ یہ
تعلق صرف ایک ہزار سال پرانا نہیں بلکہ جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو اس دنیا پر
اتارا گیا اسی وقت سے قایم ھے ، غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی کتاب ( سبحۃ
المرجان فی آثار ہندوستان ) میں ایک پوری فصل اس پر قائم کی ھے ، اس لئے سب سے پہلے مناسب
معلوم ہوتا ھے کہ دونوں ممالک کے تعلقات جن کا دائرہ بہت وسیع ہے اور جو متعدد
زندگی کے پہلوؤں کو محیط ھے ذکر کر دیا جائے ۔
اس ضمن میں ہماری گفتگو دونوں ممالک کے علمی
، سیاسی، سماجی اور تہذیبی روایات اور رشتوں کے ذکر کے ساتھ ان دونوں کے روابط پر
مشرقی علوم وفنون کے جو اثرات مرتب ہوئے مرکوز ھو گی ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ
دونوں کا تہذیبی اشتراک اور میل جول بڑا پرانا ھے ، اور اس بات کے پختہ ثبوت موجود
ھیں کہ دونوں ممالک کے تجارتی قافلے بہت سے ممالک سے گزرتے ھوے آیا جایا کرتے تھے
، اور اپنے ساتھ دونوں ممالک کے رسم ورواج اور مشترک علوم و فنون کے ورثہ کو بھی
اپنے ساتھ لے جاتے تھے یھی نہیں بلکہ دونوں جانب آباد ہونے اور بسنے کی روایت بھی
قائم تھی ، عرب باشندے ہندوستان آکر آباد ہوے اور ھندوستانی خاندان کے خاندان عرب
ممالک میں جا بسے ، دونوں ممالک کی تھذیبی روایات اور علوم وفنون کے اثرات نے ایک
دوسرے کو بیحد متاثر کیا ۔
تاریخی روایات کو دیکھتے ھوے بجا طور پر کہا
جا سکتا ھے کہ قدیم دور میں ھندوستان کے سب سے نذدیکی روابط خواہ تعلیمی ھوں یا
تجارتی ، تھذیبی و تمدنی ھوں یا سیاسی و سماجی عرب ممالک سے تھے ، جو ان سے بڑے
قریب تھے اور درمیان میں سمندر حائل تھا ایک طرف بحر ھند تو دوسری جانب بحیرہ عرب
، زمینی راستے بھی تھے جو کافی طویل مسافت پر محیط تھے ، افغانستان ، ایران اور
عراق کے راستے مصر اور شام ھوتے ھوئے لوگ بلاد عرب میں داخل ھوتے تھے ، اور سمندری
راستوں سے بحر عرب سے گزرتے ھوے عرب جہاز عراقی بندرگاہوں سے چل کر سندھ گجرات اور
کیرل کے راستے دکھنی لنکا اور چین تک پہونچتے تھے ، تجارتی اور علمی لین دین نے
دونوں ممالک کے باشندوں کے دلوں کو بھی ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا ، اسی علمی
اور تھذیبی رابطے نے انھیں ایک دوسرے کی زبان سیکھنے پر مجبور کیا ، دور قدیم ھی
سے ھندوستان میں عربی زبان سیکھنے کا رواج شروع ھو چکا تھا ، بالخصوص ساحلی علاقے
کے لوگ عربی زبان بولنے لگے تھے ، اور ھندوستان میں مستعمل اور رائج الفاظ عربوں
میں رواج پانے لگے تھے، ھم آئندہ صفحات میں عربی زبان وادب کے رواج اور تھذیبی و
ثقافتی اخذ وعطا پر تحریر کریں گے لیکن اس سے قبل مشرقی زبانوں کا عربی زبان سے اتصال اور
اسکے اثرات پر ایک جائزہ پیش کر رھے ھیں ۔
مشرقی
زبانوں پر عربی کے عمیق اثرات
یہ طے شدہ بات ھے کہ
عربی زبان ہزاروں سال گزرجانے کے باوجود بھی قدیم نہیں ھوی بلکہ اس کی جدت ابتداء
سے تھی اور تا قیامت باقی رھے گی ، زبانوں پر تحقیق کرنے والے حضرات اس بات سے
بخوبی واقف ھیں کہ ہر زبان میں 25 سے 30 سال کے عرصہ ھی میں تبدیلی رونما ھونے
لگتی ھے اور تقریبا 3 سو سال کے عرصہ میں وہ بہت کچھ اپنی اصلی شکل کھو دیتی ھے
لیکن عربی زبان کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جاھلی دور کے ادبی
وتھذیبی ورثے جو کچھ بھی ھمیں مل پائے ھیں انکا اگر جدید دور کی عربی سے موازنہ
کیا جائے تو معلوم ھو گا کہ انمیں پوری جدت قائم ھے ، پھر اسلام آنے کے بعد تو عربی
زبان زندہ جاوید زبان بن گئی خدا وند کریم نے اس کی حفاظت ابدی کا وعدہ فرمادیا (
انا نحن نزلنا الزکر وانا لہ لحافظون) میں
یہ کہ رھا تھا کہ مشرقی زبانیں مثلا فارسی، ترکی ، اردو، جاوی، افغانی اور سندھی
زبانوں پر عربی کے گہرے اثرات پڑے اور ان زبانوں کا رسم الخط بھی عربی سے ملتا
جلتا ھے ، فارسی زبان پرانے زمانے میں قدیم فارسی حروف میں لکھی جاتی تھیں، مگر اہل فارس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی اصلی زبان کے حروف متروک کر دئیے اور اس کی کتابت کے لئے عربی حروف کو اختیار کیا،
عربی زبان اپنی مکمل روح کے ساتھ پروان چڑھی اور جملہ تہذب وتمدن کا پیغامبر ثابت ہوئی، مشرق ومغرب میں اس نے اپنے پرچم لہرائے، الفاظ کی سلاست وروانی کی ہی بناء پر غیر عرب قوموں نے بھی اسے اختیار کیا، اور آج وہ کثیر قومی زبان بن کر ابھری ہے، دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔
بیشک وہ حضرات جو اس کے قدامت پر حرف رکھتے ہیں، در حقیقت وہ خود اس کے حاجت مند ہیں۔
عربی الفاظ کی کثرت سے ان زبانوں میں داخل ہوئے کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا، بسا اوقات ان زبانوں میں پورے کے پورے جملے اور اشعار ایسے ملیں گے، جو تقریباً عربی کلمات ہی سے بنائے گئے ہیں جیسے اردو میں اس کی مثال اقبال کا یہ شعر ہے ۔
یقیں محکم عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
اقبال کے اس شعر کا پہلا مصرع سات ایسے کلمات پر مشتمل ہے، جن میں چھہ عربی ہیں ،اور فارسی میں حافظ شیرازی کا قول :
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
کل سات کلمات پر مشتمل ہے جن میں چار عربی ہیں۔
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
کل سات کلمات پر مشتمل ہے جن میں چار عربی ہیں۔
ہندوستان میں عربی زبان اور عرب تھذیب
وتمدن کا ارتقاء
زمانہ نے ایک کروٹ لی اور
ھندوستان میں عرب کلچر اور عربی زبان و ادب کا چلن شروع ھوا ، اس کی صحیح تعیین
قدرے مشکل ھے کہ کب سے عرب کلچر اور عربی ادب کی ھند میں شروعات ھوی ۔ یہ حقیقت ماضی کے دھندلکوں میں رو پوش ہے، ہاں یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ عرب وہند کے روابط بہت قدیم زمانہ سے ہیں اسلام سے کہیں پہلے کے ان کے یہ تعلقات تجارتی تھے، عرب وہند کے باشندے ایک دوسرے کے ملک جاتے، مادی لین دین کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان تہذیبی وثقافتی اخذ وعطا بھی ہوتا، اس طرح انھوں نے مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے ایک دوسرے کی زبان سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا۔
در حقیقت ہندوستان پر عربی کی عمیق وعریض ضوفشانیاں اور تابانیاں، صحیح معنوں میں طلوع اسلام کے بعد دوسری صدی ہجری میں نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں، اہل عرب سندھ آئے، دینی وعلمی اور سیاسی بالا دستی کا ثبوت دیا، کم وبیش دو سو سال تک وہاں کا نظم ونسق ان کے ہاتھوں میں رہا، حکمراں طبقہ اور امراء وعاملین عربی بولتے۔ (سندھی عوام کی بول چال میں رہی لیکن عربی کے اثرات مقامی زبان پر تیزی سے بڑھتے رہے۔
چوتھی صدی ہجری کی ابتداء میں دیلمیوں کی ہندوستان میں آمد اور سندھ سے عربوں کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد فطری طور پر عربی کے چلن میں کمی آئی، رفتہ رفتہ فارسی نے اس کی جگہ لے لی، عربی مسلمانوں کی صرف دینی ومذہبی زبان کی حیثیت سے باقی رہی، قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامی کے براہ راست افہام وتفہیم اور تعلیم وتعلم کے لئے اس کا جاننا ضروری تھا۔
چوتھی صدی ہجری کی ابتداء میں دیلمیوں کی ہندوستان میں آمد اور سندھ سے عربوں کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد فطری طور پر عربی کے چلن میں کمی آئی، رفتہ رفتہ فارسی نے اس کی جگہ لے لی، عربی مسلمانوں کی صرف دینی ومذہبی زبان کی حیثیت سے باقی رہی، قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامی کے براہ راست افہام وتفہیم اور تعلیم وتعلم کے لئے اس کا جاننا ضروری تھا۔
ہندوستان کے طول وعرض سے مشتاقان سفراء اور یاران تیز گام ، رواں دواں نظر آئے، وافر مقدار میں زاد راہ اکٹھا ہوا اور منزل بہ منزل پیش قدمی ہوتی رہی۔
ہندوستان میں اسلامی علوم وفنون ور عربی زبان وادب تیزی سے نشو ونما پارہے ہیں، عہد حاضر کی صنعتی اور مشینی سہولتوں ، رسل وسیائل کے ترقی یافتہ اور تیز رفتار وسائل آمد ورفت ، اور درآمد وبرآمد کی آسانیوں ، ریڈیو، صحافت اور ابلاغ وتبلیغ کے دیگر ذرائع اور مجاہدین ملت کی سرگرم کوشوں نے اس مقصد عظیم کو مزید تقویت پہونچائی ، ہندوستانیوں کی عربی زبان منجھتی جا رہی ہے، سلاست وروانی اور پاکیزگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
) تفصیل کے لئے دیکھیں
(1) سبحۃ المرجان ص ۱۳۵ ، غلام علی آزاد بلگرامی
(2)مقالات شبلی مطبع معارف ۱۹۳۶
’’(3)دراسات فی العربیۃ وتاریخھا ‘‘محمد خضر حسین
(4)عربی ادب کی تاریخ ص: ۷۶ ، عبد الحلیم ندوی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی۔
قلمی۔
قلمی۔
(5)اطیب النغم ص: ۲۹ ، شاہ ولی اللہ ، مطبع منشی امدج علی مراد آباد ۱۳۳۵
Dr. Mohammad Salman Khan
Astt. Professor, Dept of Arab Culture
Mumtaz PG College Lucknow (India)
Email: drsalmannadwi@gmail.com
Mob: 09936244415
Postal Address: 536/
417 Makka Gunj Khadra Near Shia PG College Lucknow. India
No comments:
Post a Comment