مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت
ڈاکٹرمحمد سلمان خاں ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج،لکھنؤ
آج ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں
پسماندگی کا شکار ہے۔ تعلیم و تربیت کا میدان ہویاصنعت وحرفت یاکوئی دوسرا میدان
ہو سب ہی میں ان کے ساتھ امیتازی سلوک برتاجارہاہے، اسی لئے آج منصوبہ بند طریقہ
سے یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ مسلمان مین اسٹریم میں نہیںآناچاہتاہے جس کی وجہ
سے وہ پچھڑ گئے ہیں۔ کہنے کو تومسلمان ہرمعاملہ میں پسماندہ ہیں، لیکن ان پر ہی یہ
الزام ہے کہ برسوں سے سیاسی پارٹیاں ان کو خوش کر رہی ہیں گویامسلمانوں کی شرط پر
ہی پوراملک پسماندہ ہوگیاہے۔ خیر، مان لیاجائے کہ مختلف حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں
مسلمانوں کو خوش کرتی رہیں، لیکن اس کے فائدے مسلم سماج میں کہیں دکھائی کیوں نہیں
دیتے؟اس کاجواب کسی کے پاس نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے جب مسلمانوں کی ترقی کا
دعویٰ کیا تومسلم معاشرہ ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ گیا۔ شاہ بانو کامعاملہ
ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ مسلمان مین اسٹریم میں کیوں نہیںآسکے اور اس کی کیا وجوہات
رہیں ، آیئے مسلسلہ وار اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آج اگر ہندوستانی مسلمان ملک کی مین اسٹریم
میں کہیں نظر نہیں آتا،تو اس کے پس پشت باقاعدہ سوچی سمجھی سازش رہی ہے۔ حکومت کے
اندر اورباہر بیٹھی رجعت پسند طاقتیں برسوں سے مسلمانوں کے ارد گرد سازشوں کے
تاربنتی آئی ہیں، جن کی گرفت سے وہ چاہ کر بھی باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ آزادی کے
بعد مسلمانوں پرسب سے بڑی بجلی ایواکیوپراپرٹی لاء کی شکل میں گری۔اس قانون کے تحت
مسلمانوں کی صنعت ،کاروبار ، دکان ، مکان ، زمین جائداد اور اثاثہ کو اس بنیاد پر
ہتھیار بنالیاگیاکہیں ان کے اہل خانہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے تھے ۔ ظاہر ہے
، اس من مانے قانون نے انکی اقتصادی اورسماجی حالت مزید بدتر کر دی۔ وہ راتوں رات
اپنے آباؤاجداد کی زمین جائدادسے بے دخل ہوگئے۔ اپنی جڑوں سے کٹ چکے مسلمانوں کی
ہمت اتنی پست ہوچکی تھی کہ وہ مخالفت کرنے یاخودکو منظم کرنے کے لائق بھی نہیں
رہے۔ لہٰذا ہندوستان میں انہیں جو تھوڑا بہت ملا اسے ہی اپنی قسمت سمجھ کرخاموش
بیٹھ گئے۔ اپنی زمین جائداد سے تووہ بے دخل ہوئے ہی، سرکاری ملازمتوں سے بھی انہیں
ہاتھ دھونا پڑا۔پنڈت جواہر لعل نہروکی حکومت میں وزیر صنعت رہے ڈاکٹر
شیاماپرسادمکھرجی (جو بعدمیں جن سنگھ کے بانی بنے)نے اپنے محکمہ میں باقاعدہ ایک
خفیہ سرکلر کے ذریعہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں لینے سے روکا۔ مسلمانوں کے
تئیں کم و بیش کچھ ایسا ہی رویہ اس وقت کے وزیر داخلہ گووند بلبھ پنت کارہا۔ انہوں
نے اپنے ایک سرکاری حکم میں کہا تھاکہ پولیس اورفوج میں مسلمانوں کی بھرتی نہ کی
جائے یاکم سے کم کی جائے۔ پنت کایہ سرکاری حکم جانے انجانے میں آج تک برقرار ہے۔
فوج کے محکمے میں آج بھی ایسی ذہنیت کے لوگ کام کررہے ہیں، جو فوج میں مسلمانوں کی
بھرتی کے خلاف ہیں۔ موجودہ وقت میں دس لاکھ ہندوستانی فوجی ہیں، جن میں مسلمانوں
کی تعداد محض ۹۲؍ہزار ہے۔ یہ فوج میں
تعصب کی جانب اشارہ کرتاہے۔
ظاہر ہے ، آزادی ملنے کے شروعاتی 25۔26سالوں
میں بمشکل انہیں سرکاری نوکریوں میں جگہ ملی۔ مسلمانوں پراعتماد نہ ہونا اور انہیں
شک کے گھیرے میں رکھا جاناایک بڑی وجہ رہی، جس کے سبب وہ شروع سے ہی ترقی کی دوڑ
میں پچھڑتے چلے گئے۔ بہر حال جیسے تیسے اعتما د بحال ہوا، مسلمانوں نے مین اسٹریم
میںآنے کی کوشش کی، مگر ملک میں ہونے والے ہر فرقہ وارانہ فسادنے انہیں پیچھے کی
جانب دھکیل دیا۔ فسادات کی آنچ سے مسلمانوں کے روز گار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔
فسادات کی زیادہ تروجوہات مذہبی بتائی جاتی ہیں،جبکہ انکے پیچھے اقتصادی وجوہات
زیادہ کارفرما رہیں۔ مثال کے طورپر ممبئی ، سورت، احمدآباد، میرٹھ، علی گڑھ، مالے
گاؤں،اورنگ آباد، مرادآباد، بھیونڈی ،بھاگلپور اور کانپور جیسے شہروں میں جہاں
مسلمان اقتصادی طور پرزیادہ مضبوط تھے، وہیں سب سے زیادہ فسادات ہوئے۔ ان فسادات
نے مسلمانوں کی اقتصادی کمر توڑکر رکھ دی۔ حالیہ دنوں میں بالخصوص صوبہ اترپردیش
میں ایسے ہولناک فسادات کوسی کلاں، ایستھان، فیض آباد، بریلی میں ہوئے جس سے
سینٹراورصوبائی حکومت دونوں ہی کی شبیہہ خراب ہوئی ہے۔ آج سے 60؍سال قبل آئین سازوں نے بھلے ہی کسی کے ساتھ
مذہب، برادری ، فرقہ اور نسل کی بنیادپر کوئی تعصب نہ برتنے کا اعلان کیا ہو، مگر
آج حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ یہ تعصب ہر معاملہ میں
دکھائی دیتاہے۔مسلم فرقہ تعلیم،صحت ، اقتصادی تحفظ اورعام شعبہ میں اکثریتی سماج
سے کافی پیچھے ہے۔ حالانکہ ، آئین کے تحت مساوات کا حق اسے بھی حاصل ہے۔
مسلمانوں کی مجموعی ترقی کیلئے سچرکمیٹی
اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت سے کئی سفارشیں کی تھیں۔ ان میں
سب سے اہم سفارش یہ تھی کہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کے تئیں ہونے والے تعصب کو
روکنے کیلئے یکساں مواقع کمیشن کا قیام ہو، لیکن رپورٹ کو آئے چارسال ہو گئے، مگر
یکساں مواقع کمیشن ابھی تک حقیقت نہیں بن پایا۔ جبکہ حکمراں کانگریس نے اپنے
مخالفین منشور میں اس کمیٹی کی تشکیل کا وعدہ کیاتھاجوبنی نہیں۔ یوپی اے کے دوبارہ
اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد صدرجمہوریہ پرتبھاپاٹل نے جون 2009ء میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ میٹنگ کوخطاب کرتے ہوئے
یکساں مواقع تشکیل کرنے کیلئے حکومت کے پابند ہونے کا خاص طور پرذکر کیاتھا۔
سچر کمیٹی اوررنگ ناتھ مشر کمیشن کی دوسری
اہم سفارش یہ تھی کہ دلت مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ کادرجہ دیاجائے، لیکن اس پر بھی
حکومت قطعی سنجیدہ نہیں دکھائی دیتی۔ جبکہ پارلیمنٹ سے باہر دونوں جگہ حکومت پررنگ
ناتھ مشراکمیشن کی سفارشات نافذکرنے کا زبردست دباؤ بناہواہے۔ اصل میں ملک میں
مسلمانوں کی پسماند گی اتنی ہے کہ شہری علاقوں میں تقریباً۸۳؍فیصدی اوردیہی علاقوں میں ۷۲؍فیصد مسلمان خط افلاس
کے نیچے بدترین حالت میں گزر بسر کررہے ہیں۔ان کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے
رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے پسماندہ طبقہ کے ۷۲؍فیصد کو ٹہ میں بھی اقلیتوں کا کوٹہ مقرر کرنے کی وکالت کی ہے، لیکن
مرکزی حکومت نے اس جانب ابھی تک کوئی پہل نہیں کی۔ پارلیمنٹ او ر اسمبلی میں
مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کیلئے سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں موجودہ حد بندی
ایکٹ کا معائنہ کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس پریوپی اے حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی
کی تشکیل بھی کردی تھی، لیکن اس کی رپورٹ کا ابھی تک انتظار ہے۔ وقف جائداد کے
مناسب انتظام کیلئے یوپی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ موجودہ وقف
بورڈوں کی غلطیوں اور خامیوں کودورکرنے کیلئے وقف ایکٹ میں فوری طورپروسیع ترمیم
کی جائے گی، جس سے کروڑوں اربوں روپئے کی وقف جائدادوں کا بہتر طریقہ سے استعمال
ہوسکے، مگر یہ ترمیم بھی پارلیمنٹ میں پیش ہونے کی منتظر ہے۔
مسلمانوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ خود کا
روزگار ہے۔ سچر کمیٹی کا اندازہ تھاکہ مسلمانوں کومالی اداروں سے دوسروں کے مقابلہ
کم قرض ملتاہے۔ انہیں قرض دینے میں آناکافی کی جاتی ہے۔ ہر جگہ یہ حالت ہونے کے
باوجود کہیں بھی اس کی نگرانی نہیں ہوتی۔ لہٰذاحکومت نے اس جانب اصلاح کرنے کیلئے
مسلم نوجوانوں کو اپنے کاروبار کیلئے پبلک سیکٹر کے بینکوں سے قرض کی سہولت بڑھانے
،آئندہ تین سالوں میں قرض موجودہ سطح سے بڑھاکر ۵۱؍فیصد تک لے جانے اور اس کی
نگرانی کرنے کا وعدہ کیاتھا، لیکن حالات آج بھی نہیں بدلے ہیں۔ اس معاملہ میں خود
سرکاری اعداد وشمار کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے
مطابق سال2009-10میں گجرات میں سرکاری بینکوں
نے اقلیتوں کوجوقرض دیا، وہ ان کے ذریعہ بنیادی شعبہ کو دیئے گئے قرض کا محض ۵۴ء۴؍فیصد ہے، جبکہ یہ ۰۱؍فیصد ہوناچاہئے تھا۔
یہی نہیں بینکوں نے یہاں اقلیتوں کو ۱۴۳۵؍کروڑروپئے دینے کا ہدف رکھاتھا، جبکہ باٹنا صرف ۱۸ء۰۶۸۱؍کروڑ روپئے یعنی محض ۴۸ء۴۳؍فیصد، مسلمانوں کو قرض دینے
کے معاملہ میں سب سے حیرت انگریز بات یہ ہے کہ چاہے گجرات میں وزیر اعلیٰ نریندر
مودی کی بی جے پی حکومت ہویاپھر دہلی کی شیلادکشت کی کانگریس حکومت، دونوں
کامسلمانوں کوقرض دینے کے معاملہ میں ایک جیساہی رویہ رہاہے۔ دہلی میں یہ ہدف ۲۸۹۵؍کروڑ روپئے کاتھا،
لیکن بانٹے گئے محض ۵۶۱۳؍کروڑ روپئے۔ یعنی ہدف کامحض ۷۹ء۲۵؍فیصد حصہ۔ کم و بیش
یہی حال کانگریس کی حکومت والی دیگر ریاستوں جیسے مہاراشٹراور راجستھان کارہا،
جہاں طے شدہ ہدف کا۰۵اور ۱۵ء۸۵؍فیصد ہی قرض بانٹاگیا۔
خواتین میں تعلیمی بیداری کے موضوع پر
منعقد ایک کانفرنس میں جو گونڈہ ضلع کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ظفریاب جیلانی صاحب
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے اسی بیداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ ضرورت ہے
مسلمان حقوق کے حصول کیلئے بیدار ہوں آئینی حقوق انہیں مکمل طورپر حاصل ہیں لیکن
عدم واقفیت کے نتیجے میںآج مسلمان تعلیمی، اقتصادی اور سماجی میدان میں پیچھے ہوتے
چلے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلم فرقہ کی ترقی ملک کی ترقی سے الگ نہیں ہے۔
سیکولر حکومت اور تمام آئینی اختیارات ہونے
کے باوجود مسلمانوں کو وقت وقت پر مسلمان ہونے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ جس کی
طرف شاید ہی کسی کا دھیان جاتاہے۔ خاص طور پر وہ نوکر شاہی اور حفاظتی ایجنسیوں کی
فرقہ وارانہ ذہنیت کا سب سے بڑا شکارہیں۔ بنا جرم کے انہیں اپنی بے گناہی ثابت
کرنی پڑتی ہے۔ جب کبھی کہیں فرقہ وارانہ فسادیاذہنیت ہوتی ہے، پورے مسلم فرقہ
پرخوف طاری ہوجاتاہے۔ پولیس کی دھرپکڑ کا اول نشانہ مسلمان ہی ہوتے ہیں اوربغیر
تفتیش کے گرفتاریاں عمل میںآنے لگتی ہیں۔ ملک میں حال ہی میں ہوے تمام بم دھماکوں
میں تفتیشی ایجنسیوں نے جو گرفتاریاں کیں، اگر غور کریں تو ان میں سب سے زیادہ
گرفتاریاں مسلمانوں کی ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ ثبوت نہ مل پانے کے سبب بعدمیں
انہیں چھوڑناپڑا۔ مثلاً جے پوربم دھماکہ میں ڈاکٹر ابرار اور انوار اور حیدرآباد
میں ۲۲؍مسلم نوجوانوں کو مکہ
مسجد بم دھماکہ کا گنہگار بتاکرپہلے تو۸۔10ماہ جیل میں رکھا گیا اور پھر بعد میں
چھوڑدیاگیا۔ ان وارداتوں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہندوستانی مسلمان کن
حالات سے گزر رہے ہیں ۔ ان کے تئیں شک اور علیحدگی کے ماحول نے انہیں مین اسٹریم
سے کاٹ کر رکھ دیاہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں ، جن کے سبب مسلمان چاہ
کر بھی اہم کڑی میں نہیں آپارہے ہیں۔ مسلمان اہم کڑی میں آئیں، اس کے لئے حکومت کو
اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔ سب سے پہلے سچر کمیٹی اوررنگ ناتھ مشراکمیشن کے تمام
مشوروں اور سفارشات کو ایمانداری سے عمل میں لاناہوگا۔ نوکر شاہی میں پھیلے فرقہ وارانہ
تعصب اور لاتعلقی کو دور کرنے کی خصوصی کوششیں کرنی ہوں گی۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان
قانونی دفعات کا بھی جائزہ لیں اوراپنے حقوق کی بازیابی کیلئے تمام وسائل و
امکانات کوبروئے کار لاتے ہوئے منظم ومربوط کوشش کریں۔ اس جمہوری ملک میں مسلم
اقلیت کو پورے حقوق حاصل ہیں لیکن لاعلمی اوربے توجہی کے نتیجہ میں اسے حاصل نہیں
کرپاتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے کئی مواقع پر بڑے بڑے سیمیناروں اوراجلاس
میں اس بات پرزور دیاہے کہ مسلم اسکالرس Indian Law (ہندوستانی
آئین)پرنہ صرف نظررکھیں بلکہ بغورجائزہ لیں اس کے نتیجہ میں50؍فیصد مسائل یونہی حل ہوجائیں گے۔ حکومت
اقلیتوں کیلئے جو مراعات دے رہی ہے اسے بھرپور طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کریں
جبکہ نتیجہ یہ سامنے آتاہے ۔ مائنارٹیز کے نام سے جو فنڈ حکومت اپنے سالانہ بجٹ
میں مختص کرتی ہے کبھی بھی اس کااستعمال مکمل طور پر نہیں ہوتا۔
اب میں دستور ہند کی روشنی میں چند دفعات
کا ذکرکررہاہوں جومسلم اقلیت کی ترقی وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات
کی ہے کہ قانونی چارہ جوئی کیلئے پوری تیاری کی جائے صرف جذبات سے نہ کھیلاجائے جس
کاسلسلہ آزادی کے بعد سے اب تک جاری ہے۔ ۶؍نومبر 1949 کو مجلس قانون ساز میں پاس ہوئے۔
آرٹیکل ۹۱:۔ تمام باشندوں کو اظہار رائے
کی آزادی ، آزادانہ طورپر پورے ملک میں رہنے گھومنے پھرنے انجمن یا یونین بنانے
اپنی مرضی سے پروفیشن یاکاروبار اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
آرٹیکل۵۲:۔تمام باشندوں کوضمیرکی آزادی
، کوئی بھی مذہب و مسلک اختیار کرنے کی آزادی اور اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کی
گارنٹی دیتاہے۔
آرٹیکل ۶۲:۔میں مذہبی اور عوامی فلاح و
بہبود کے ادارے کھولنے اور اپنے مذہبی معاملات کو خود سے نمٹانے کی گارنٹی حاصل
ہے۔
آرٹیکل ۹۲:۔میں وہ طبقے جو اپنی منفرد زبان رکھتے ہوں، انہیں اس کی حفاظت اس کے رسم الخط کی حفاظت اور تہذیبی ورثہ کو قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل ۹۲:۔میں وہ طبقے جو اپنی منفرد زبان رکھتے ہوں، انہیں اس کی حفاظت اس کے رسم الخط کی حفاظت اور تہذیبی ورثہ کو قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل ۰۳:۔میں اقلیتوں کو اپنے مذہبی
ادارے قائم کرنے اوراسکے انتظام و انصرام کی مکمل آزادی دی گئی ہے ۔ اور اس طرح
مرکزی یا صوبائی حکومت محض مذہب یازبان کی بنیاد پر سرکاری امداد دینے میں کوئی
امتیاز نہیں برت سکتی ۔
سیکولر
پارٹیوں سے مسلمانوں کے مطالبات
جو
سیاسی پارٹیاں ہماری تایید چاہتی ہیں وہ مرکزی اور علاقائی دوسطحوں پر وعدہ کریں
کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ گاؤں ؍وارڈ؍بلاک میں آبادی میں تناسب کے لحاظ
سے مسلمانوں کو تمام سرکاری ویلفیر
ا
سکیموں میں عادلانہ حصہ ملے گا جیسے رہائش، علاج، تعلیم، غذا اور کام کی ا سکیمیں
وغیرہ ۔ اس مقصد کے لئے گاؤں؍وارڈ؍بلاک کی سطح پر انتظامی اور نگرانی کی میکینزم
بننا ضروری ہے تاکہ آبادی میں تناسب کے ساتھ مسلمانوں کو انکا حصہ مل سکے۔ جہاں
بھی ممکن ہو اسکیمیں تمام غربا اور مستحقین کے لئے بنائی جائیں، مثلا صحت اور
زندگی کے حق کی اسکیمیں صرف اقلیت کے لئے نہیں بلکہ پوری آبادی کے مستحقین کے لئے
ہوں۔
مسلم
سماج کے مخصوص مسائل:
عمومی
نوعیت کی ضروریات اور سہولتوں کے ساتھ ساتھ مسلم سماج کے کچھ اپنے الگ مسائل بھی
ہیں جن کے بارے میں سیکولر سیاسی پارٹیاں وعدہ کریں کہ وہ مرکزیا صوبے میں اقتدار
میں آنے پر دو سال کے اندر اپنے دائرۂ اختیار میں یہ مسائل حل کریں گی ۔ ایسے واضح
اور لکھے ہوئے وعدے کی بنیاد پر ہم ان کو اگلے الیکشن میں ووٹ دیں گے۔ ہمارے مخصوص
مسائل اور مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ بارہویں پنچ سالہ پلان میں اقلیتوں
کے بارے میں سفاشارت کا مکمل اور ایماندارانہ نفاذ۔
۲۔ فساد مخالف بل کو بغیر کسی تبدیلی
اور تخفیف کے لاگو کرنا، جسمیں فساد کرانے والے افراد اور سیاسی پارٹیوں کے الیکشن
لڑنے پر پابندی کی شق بھی شامل ہو نیز نچلی سطح کی انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری
بھی طے ہو۔
۳۔ جسٹس سچر کمیٹی اور جسٹس مشرا کمیشن
کی سفارشات کا مکمل نفاذ۔
۴۔ دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو
شیڈولڈ کاسٹ ریزرویشن میں دستور کی دفعہ ۳۴۱ کے تحت شامل کرنا اور اس کے لئے ۱۹۵۰ میں صادر ہونے والے صدر جمہوریہ کے
غیر دستوری اور ظلم پر مبنی حکم کو واپس لینا۔
۵۔ یواے پی اے اور افپسا جیسے قانونوں
کو ختم کرنا اور اس بات کا وعدہ کرنا کہ ان قانونوں کی ظالمانہ شقوں کو چپکے سے
کسی اور قانون میں نہیں داخل کیا جائے گا اور تعذیب کو ہر صورت میں غیر قانونی
قرار دینا۔
۶۔ (ألف): دہشت گردی کے نام پر گرفتار
معصوم مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی اگر ۱۸۰ دنوں میں چارج شیٹ فائل نہیں ہوتی
ہے،ان کے خلاف الزامات کو واپس لینا اگر دوسال میں کیس فائل نہیں ہوتا ہے، اوران کے
خلاف کیس کو واپس لینا اگرچار سال میں کیس عدالت میں ثابت نہں ہوتاہے۔ اس کام کے
لئے ٹاڈا کی طرح سے اسکرینینگ کمیٹی قائم کی جائے۔
(ب) دہشت گردی میں ماخوذ تمام ملزمین کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں
کا قیام اس شرط کے ساتھ کہ عدالتوں سے متعلق ججوں پر دوسرے کیسوں کا بوجھ نہ ڈالا
جائے۔
(ج) دہشت گرد ی کے جن ملزمین کی باعزت رہائی ہوتی ہے ان کو قید
کے ہر سال پر پانچ لاکھ روپیہ ہرجانہ۔
(د) جو افسران باعزت بری ہونے والے ملزمین کو پھنسانے میں ملوث
تھے اورجنہوں نے تعذیب کے ذریعہ ان سے اعتراف نامے حاصل کئے تھے، ان کی بر طرفی
اور ان پر مقدمات قائم کرنا۔
۷۔ شیڈولڈ کاسٹ کے لئے رزرو کردہ مسلم
اکژیتی پارلیمنٹری اور اسمبلی سیٹوں کو رزرویشن سے نکالا جائے اور اس مقصد کے لئے
اول فرصت میں ڈیلیمیٹیشن کمیٹی کا انعقاد کرایا جائے کہ متعین مدت میں یہ کام
انجام دے۔
۸۔ بجٹ کے اندرشیڈولڈ کاسٹ کے طرز پر
مسلمانوں کے لئے بھی سب پلان بنایا جائے جسمیں آبادی میں تناسب کے لحاظ سے
مسلمانوں کے لئے بجٹ مختص کیا جائے۔
۹۔ تمام وقف جائدادوں کو متعلقہ وقف
بورڈوں کے حوالے کیا جائے اور قابل احترام مسلم علماء اور شخصیات کو وقف بورڈوں کا
ممبر بنایا جائے۔
۱۰۔ مدرسہ ا سکیموں کی تشہیر ہو اور
مدارس کی سندوں کو اسکولوں اور کالجوں کی سندوں کے مساوی تسلیم کیا جائے تاکہ
مدارس کے فضلا کو ملازمتیں اور یونیورسٹیوں میں داخلے مل سکیں۔
۱۱۔ اسلامی یا اخلاقی بینکنگ اور فائننس
کو جلد از جلد نافذ کیا جائے جیسا کہ فائننشیل ریفارم کے لئے رگھورام راجن کمیٹی
نے مشورہ دیا ہے۔
۱۲۔ اردو میڈیم اسکولوں کی اجازت اور
اردو دان لوگوں کو ملازمتوں کی سہولتیں ۔
۱۳۔ قابل احترام مسلم شخصیات کی سرکاری
عہدوں، مثلا کمیشنوں، بورڈز اور گورنروں، پر تعیناتی اور پدماانعامات میں ان کی
شمولیت ۔
۱۴۔ سامراجی عہدکے ظالمانہ پولیس ایکٹ
کو ختم کرکے اس کی جگہ عوام دوست پولیس ایکٹ لایا جائے جس کے تحت پولیس عوام کی
خادم ہو۔ نیز پولیس کو فرقہ پرستی سے پاک کیا جائے اور مسلمانوں کو پولیس فورس میں
آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
ملی
اور سیاسی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے یہ ہمارا مجوزہ ایجنڈا ہے۔ اگر اس پر
ایمانداری سے عمل کیا جائے تو ملت بھی آگے بڑھے گی اور ملک بھی ترقی کرے گا کیونکہ
ایک بڑی اقلیت کو نظر انداز کرنے سے پوراملک پیچھے رہ جائے گا جس میں نہ ملک کا
فائدہ ہے اور نہ اس طبقہ کا جو مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتا ہے۔
No comments:
Post a Comment