culture/ civilization: حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات...: بسم الله الرحمن الر حيم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی ج...
Saturday, December 13, 2014
Friday, December 12, 2014
مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت
مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت
ڈاکٹرمحمد سلمان خاں ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج،لکھنؤ
آج ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں
پسماندگی کا شکار ہے۔ تعلیم و تربیت کا میدان ہویاصنعت وحرفت یاکوئی دوسرا میدان
ہو سب ہی میں ان کے ساتھ امیتازی سلوک برتاجارہاہے، اسی لئے آج منصوبہ بند طریقہ
سے یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ مسلمان مین اسٹریم میں نہیںآناچاہتاہے جس کی وجہ
سے وہ پچھڑ گئے ہیں۔ کہنے کو تومسلمان ہرمعاملہ میں پسماندہ ہیں، لیکن ان پر ہی یہ
الزام ہے کہ برسوں سے سیاسی پارٹیاں ان کو خوش کر رہی ہیں گویامسلمانوں کی شرط پر
ہی پوراملک پسماندہ ہوگیاہے۔ خیر، مان لیاجائے کہ مختلف حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں
مسلمانوں کو خوش کرتی رہیں، لیکن اس کے فائدے مسلم سماج میں کہیں دکھائی کیوں نہیں
دیتے؟اس کاجواب کسی کے پاس نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے جب مسلمانوں کی ترقی کا
دعویٰ کیا تومسلم معاشرہ ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ گیا۔ شاہ بانو کامعاملہ
ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ مسلمان مین اسٹریم میں کیوں نہیںآسکے اور اس کی کیا وجوہات
رہیں ، آیئے مسلسلہ وار اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آج اگر ہندوستانی مسلمان ملک کی مین اسٹریم
میں کہیں نظر نہیں آتا،تو اس کے پس پشت باقاعدہ سوچی سمجھی سازش رہی ہے۔ حکومت کے
اندر اورباہر بیٹھی رجعت پسند طاقتیں برسوں سے مسلمانوں کے ارد گرد سازشوں کے
تاربنتی آئی ہیں، جن کی گرفت سے وہ چاہ کر بھی باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ آزادی کے
بعد مسلمانوں پرسب سے بڑی بجلی ایواکیوپراپرٹی لاء کی شکل میں گری۔اس قانون کے تحت
مسلمانوں کی صنعت ،کاروبار ، دکان ، مکان ، زمین جائداد اور اثاثہ کو اس بنیاد پر
ہتھیار بنالیاگیاکہیں ان کے اہل خانہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے تھے ۔ ظاہر ہے
، اس من مانے قانون نے انکی اقتصادی اورسماجی حالت مزید بدتر کر دی۔ وہ راتوں رات
اپنے آباؤاجداد کی زمین جائدادسے بے دخل ہوگئے۔ اپنی جڑوں سے کٹ چکے مسلمانوں کی
ہمت اتنی پست ہوچکی تھی کہ وہ مخالفت کرنے یاخودکو منظم کرنے کے لائق بھی نہیں
رہے۔ لہٰذا ہندوستان میں انہیں جو تھوڑا بہت ملا اسے ہی اپنی قسمت سمجھ کرخاموش
بیٹھ گئے۔ اپنی زمین جائداد سے تووہ بے دخل ہوئے ہی، سرکاری ملازمتوں سے بھی انہیں
ہاتھ دھونا پڑا۔پنڈت جواہر لعل نہروکی حکومت میں وزیر صنعت رہے ڈاکٹر
شیاماپرسادمکھرجی (جو بعدمیں جن سنگھ کے بانی بنے)نے اپنے محکمہ میں باقاعدہ ایک
خفیہ سرکلر کے ذریعہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں لینے سے روکا۔ مسلمانوں کے
تئیں کم و بیش کچھ ایسا ہی رویہ اس وقت کے وزیر داخلہ گووند بلبھ پنت کارہا۔ انہوں
نے اپنے ایک سرکاری حکم میں کہا تھاکہ پولیس اورفوج میں مسلمانوں کی بھرتی نہ کی
جائے یاکم سے کم کی جائے۔ پنت کایہ سرکاری حکم جانے انجانے میں آج تک برقرار ہے۔
فوج کے محکمے میں آج بھی ایسی ذہنیت کے لوگ کام کررہے ہیں، جو فوج میں مسلمانوں کی
بھرتی کے خلاف ہیں۔ موجودہ وقت میں دس لاکھ ہندوستانی فوجی ہیں، جن میں مسلمانوں
کی تعداد محض ۹۲؍ہزار ہے۔ یہ فوج میں
تعصب کی جانب اشارہ کرتاہے۔
ظاہر ہے ، آزادی ملنے کے شروعاتی 25۔26سالوں
میں بمشکل انہیں سرکاری نوکریوں میں جگہ ملی۔ مسلمانوں پراعتماد نہ ہونا اور انہیں
شک کے گھیرے میں رکھا جاناایک بڑی وجہ رہی، جس کے سبب وہ شروع سے ہی ترقی کی دوڑ
میں پچھڑتے چلے گئے۔ بہر حال جیسے تیسے اعتما د بحال ہوا، مسلمانوں نے مین اسٹریم
میںآنے کی کوشش کی، مگر ملک میں ہونے والے ہر فرقہ وارانہ فسادنے انہیں پیچھے کی
جانب دھکیل دیا۔ فسادات کی آنچ سے مسلمانوں کے روز گار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔
فسادات کی زیادہ تروجوہات مذہبی بتائی جاتی ہیں،جبکہ انکے پیچھے اقتصادی وجوہات
زیادہ کارفرما رہیں۔ مثال کے طورپر ممبئی ، سورت، احمدآباد، میرٹھ، علی گڑھ، مالے
گاؤں،اورنگ آباد، مرادآباد، بھیونڈی ،بھاگلپور اور کانپور جیسے شہروں میں جہاں
مسلمان اقتصادی طور پرزیادہ مضبوط تھے، وہیں سب سے زیادہ فسادات ہوئے۔ ان فسادات
نے مسلمانوں کی اقتصادی کمر توڑکر رکھ دی۔ حالیہ دنوں میں بالخصوص صوبہ اترپردیش
میں ایسے ہولناک فسادات کوسی کلاں، ایستھان، فیض آباد، بریلی میں ہوئے جس سے
سینٹراورصوبائی حکومت دونوں ہی کی شبیہہ خراب ہوئی ہے۔ آج سے 60؍سال قبل آئین سازوں نے بھلے ہی کسی کے ساتھ
مذہب، برادری ، فرقہ اور نسل کی بنیادپر کوئی تعصب نہ برتنے کا اعلان کیا ہو، مگر
آج حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ یہ تعصب ہر معاملہ میں
دکھائی دیتاہے۔مسلم فرقہ تعلیم،صحت ، اقتصادی تحفظ اورعام شعبہ میں اکثریتی سماج
سے کافی پیچھے ہے۔ حالانکہ ، آئین کے تحت مساوات کا حق اسے بھی حاصل ہے۔
مسلمانوں کی مجموعی ترقی کیلئے سچرکمیٹی
اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت سے کئی سفارشیں کی تھیں۔ ان میں
سب سے اہم سفارش یہ تھی کہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کے تئیں ہونے والے تعصب کو
روکنے کیلئے یکساں مواقع کمیشن کا قیام ہو، لیکن رپورٹ کو آئے چارسال ہو گئے، مگر
یکساں مواقع کمیشن ابھی تک حقیقت نہیں بن پایا۔ جبکہ حکمراں کانگریس نے اپنے
مخالفین منشور میں اس کمیٹی کی تشکیل کا وعدہ کیاتھاجوبنی نہیں۔ یوپی اے کے دوبارہ
اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد صدرجمہوریہ پرتبھاپاٹل نے جون 2009ء میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ میٹنگ کوخطاب کرتے ہوئے
یکساں مواقع تشکیل کرنے کیلئے حکومت کے پابند ہونے کا خاص طور پرذکر کیاتھا۔
سچر کمیٹی اوررنگ ناتھ مشر کمیشن کی دوسری
اہم سفارش یہ تھی کہ دلت مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ کادرجہ دیاجائے، لیکن اس پر بھی
حکومت قطعی سنجیدہ نہیں دکھائی دیتی۔ جبکہ پارلیمنٹ سے باہر دونوں جگہ حکومت پررنگ
ناتھ مشراکمیشن کی سفارشات نافذکرنے کا زبردست دباؤ بناہواہے۔ اصل میں ملک میں
مسلمانوں کی پسماند گی اتنی ہے کہ شہری علاقوں میں تقریباً۸۳؍فیصدی اوردیہی علاقوں میں ۷۲؍فیصد مسلمان خط افلاس
کے نیچے بدترین حالت میں گزر بسر کررہے ہیں۔ان کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے
رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے پسماندہ طبقہ کے ۷۲؍فیصد کو ٹہ میں بھی اقلیتوں کا کوٹہ مقرر کرنے کی وکالت کی ہے، لیکن
مرکزی حکومت نے اس جانب ابھی تک کوئی پہل نہیں کی۔ پارلیمنٹ او ر اسمبلی میں
مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کیلئے سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں موجودہ حد بندی
ایکٹ کا معائنہ کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس پریوپی اے حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی
کی تشکیل بھی کردی تھی، لیکن اس کی رپورٹ کا ابھی تک انتظار ہے۔ وقف جائداد کے
مناسب انتظام کیلئے یوپی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ موجودہ وقف
بورڈوں کی غلطیوں اور خامیوں کودورکرنے کیلئے وقف ایکٹ میں فوری طورپروسیع ترمیم
کی جائے گی، جس سے کروڑوں اربوں روپئے کی وقف جائدادوں کا بہتر طریقہ سے استعمال
ہوسکے، مگر یہ ترمیم بھی پارلیمنٹ میں پیش ہونے کی منتظر ہے۔
مسلمانوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ خود کا
روزگار ہے۔ سچر کمیٹی کا اندازہ تھاکہ مسلمانوں کومالی اداروں سے دوسروں کے مقابلہ
کم قرض ملتاہے۔ انہیں قرض دینے میں آناکافی کی جاتی ہے۔ ہر جگہ یہ حالت ہونے کے
باوجود کہیں بھی اس کی نگرانی نہیں ہوتی۔ لہٰذاحکومت نے اس جانب اصلاح کرنے کیلئے
مسلم نوجوانوں کو اپنے کاروبار کیلئے پبلک سیکٹر کے بینکوں سے قرض کی سہولت بڑھانے
،آئندہ تین سالوں میں قرض موجودہ سطح سے بڑھاکر ۵۱؍فیصد تک لے جانے اور اس کی
نگرانی کرنے کا وعدہ کیاتھا، لیکن حالات آج بھی نہیں بدلے ہیں۔ اس معاملہ میں خود
سرکاری اعداد وشمار کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے
مطابق سال2009-10میں گجرات میں سرکاری بینکوں
نے اقلیتوں کوجوقرض دیا، وہ ان کے ذریعہ بنیادی شعبہ کو دیئے گئے قرض کا محض ۵۴ء۴؍فیصد ہے، جبکہ یہ ۰۱؍فیصد ہوناچاہئے تھا۔
یہی نہیں بینکوں نے یہاں اقلیتوں کو ۱۴۳۵؍کروڑروپئے دینے کا ہدف رکھاتھا، جبکہ باٹنا صرف ۱۸ء۰۶۸۱؍کروڑ روپئے یعنی محض ۴۸ء۴۳؍فیصد، مسلمانوں کو قرض دینے
کے معاملہ میں سب سے حیرت انگریز بات یہ ہے کہ چاہے گجرات میں وزیر اعلیٰ نریندر
مودی کی بی جے پی حکومت ہویاپھر دہلی کی شیلادکشت کی کانگریس حکومت، دونوں
کامسلمانوں کوقرض دینے کے معاملہ میں ایک جیساہی رویہ رہاہے۔ دہلی میں یہ ہدف ۲۸۹۵؍کروڑ روپئے کاتھا،
لیکن بانٹے گئے محض ۵۶۱۳؍کروڑ روپئے۔ یعنی ہدف کامحض ۷۹ء۲۵؍فیصد حصہ۔ کم و بیش
یہی حال کانگریس کی حکومت والی دیگر ریاستوں جیسے مہاراشٹراور راجستھان کارہا،
جہاں طے شدہ ہدف کا۰۵اور ۱۵ء۸۵؍فیصد ہی قرض بانٹاگیا۔
خواتین میں تعلیمی بیداری کے موضوع پر
منعقد ایک کانفرنس میں جو گونڈہ ضلع کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ظفریاب جیلانی صاحب
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے اسی بیداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ ضرورت ہے
مسلمان حقوق کے حصول کیلئے بیدار ہوں آئینی حقوق انہیں مکمل طورپر حاصل ہیں لیکن
عدم واقفیت کے نتیجے میںآج مسلمان تعلیمی، اقتصادی اور سماجی میدان میں پیچھے ہوتے
چلے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلم فرقہ کی ترقی ملک کی ترقی سے الگ نہیں ہے۔
سیکولر حکومت اور تمام آئینی اختیارات ہونے
کے باوجود مسلمانوں کو وقت وقت پر مسلمان ہونے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ جس کی
طرف شاید ہی کسی کا دھیان جاتاہے۔ خاص طور پر وہ نوکر شاہی اور حفاظتی ایجنسیوں کی
فرقہ وارانہ ذہنیت کا سب سے بڑا شکارہیں۔ بنا جرم کے انہیں اپنی بے گناہی ثابت
کرنی پڑتی ہے۔ جب کبھی کہیں فرقہ وارانہ فسادیاذہنیت ہوتی ہے، پورے مسلم فرقہ
پرخوف طاری ہوجاتاہے۔ پولیس کی دھرپکڑ کا اول نشانہ مسلمان ہی ہوتے ہیں اوربغیر
تفتیش کے گرفتاریاں عمل میںآنے لگتی ہیں۔ ملک میں حال ہی میں ہوے تمام بم دھماکوں
میں تفتیشی ایجنسیوں نے جو گرفتاریاں کیں، اگر غور کریں تو ان میں سب سے زیادہ
گرفتاریاں مسلمانوں کی ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ ثبوت نہ مل پانے کے سبب بعدمیں
انہیں چھوڑناپڑا۔ مثلاً جے پوربم دھماکہ میں ڈاکٹر ابرار اور انوار اور حیدرآباد
میں ۲۲؍مسلم نوجوانوں کو مکہ
مسجد بم دھماکہ کا گنہگار بتاکرپہلے تو۸۔10ماہ جیل میں رکھا گیا اور پھر بعد میں
چھوڑدیاگیا۔ ان وارداتوں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہندوستانی مسلمان کن
حالات سے گزر رہے ہیں ۔ ان کے تئیں شک اور علیحدگی کے ماحول نے انہیں مین اسٹریم
سے کاٹ کر رکھ دیاہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں ، جن کے سبب مسلمان چاہ
کر بھی اہم کڑی میں نہیں آپارہے ہیں۔ مسلمان اہم کڑی میں آئیں، اس کے لئے حکومت کو
اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔ سب سے پہلے سچر کمیٹی اوررنگ ناتھ مشراکمیشن کے تمام
مشوروں اور سفارشات کو ایمانداری سے عمل میں لاناہوگا۔ نوکر شاہی میں پھیلے فرقہ وارانہ
تعصب اور لاتعلقی کو دور کرنے کی خصوصی کوششیں کرنی ہوں گی۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان
قانونی دفعات کا بھی جائزہ لیں اوراپنے حقوق کی بازیابی کیلئے تمام وسائل و
امکانات کوبروئے کار لاتے ہوئے منظم ومربوط کوشش کریں۔ اس جمہوری ملک میں مسلم
اقلیت کو پورے حقوق حاصل ہیں لیکن لاعلمی اوربے توجہی کے نتیجہ میں اسے حاصل نہیں
کرپاتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے کئی مواقع پر بڑے بڑے سیمیناروں اوراجلاس
میں اس بات پرزور دیاہے کہ مسلم اسکالرس Indian Law (ہندوستانی
آئین)پرنہ صرف نظررکھیں بلکہ بغورجائزہ لیں اس کے نتیجہ میں50؍فیصد مسائل یونہی حل ہوجائیں گے۔ حکومت
اقلیتوں کیلئے جو مراعات دے رہی ہے اسے بھرپور طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کریں
جبکہ نتیجہ یہ سامنے آتاہے ۔ مائنارٹیز کے نام سے جو فنڈ حکومت اپنے سالانہ بجٹ
میں مختص کرتی ہے کبھی بھی اس کااستعمال مکمل طور پر نہیں ہوتا۔
اب میں دستور ہند کی روشنی میں چند دفعات
کا ذکرکررہاہوں جومسلم اقلیت کی ترقی وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات
کی ہے کہ قانونی چارہ جوئی کیلئے پوری تیاری کی جائے صرف جذبات سے نہ کھیلاجائے جس
کاسلسلہ آزادی کے بعد سے اب تک جاری ہے۔ ۶؍نومبر 1949 کو مجلس قانون ساز میں پاس ہوئے۔
آرٹیکل ۹۱:۔ تمام باشندوں کو اظہار رائے
کی آزادی ، آزادانہ طورپر پورے ملک میں رہنے گھومنے پھرنے انجمن یا یونین بنانے
اپنی مرضی سے پروفیشن یاکاروبار اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
آرٹیکل۵۲:۔تمام باشندوں کوضمیرکی آزادی
، کوئی بھی مذہب و مسلک اختیار کرنے کی آزادی اور اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کی
گارنٹی دیتاہے۔
آرٹیکل ۶۲:۔میں مذہبی اور عوامی فلاح و
بہبود کے ادارے کھولنے اور اپنے مذہبی معاملات کو خود سے نمٹانے کی گارنٹی حاصل
ہے۔
آرٹیکل ۹۲:۔میں وہ طبقے جو اپنی منفرد زبان رکھتے ہوں، انہیں اس کی حفاظت اس کے رسم الخط کی حفاظت اور تہذیبی ورثہ کو قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل ۹۲:۔میں وہ طبقے جو اپنی منفرد زبان رکھتے ہوں، انہیں اس کی حفاظت اس کے رسم الخط کی حفاظت اور تہذیبی ورثہ کو قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل ۰۳:۔میں اقلیتوں کو اپنے مذہبی
ادارے قائم کرنے اوراسکے انتظام و انصرام کی مکمل آزادی دی گئی ہے ۔ اور اس طرح
مرکزی یا صوبائی حکومت محض مذہب یازبان کی بنیاد پر سرکاری امداد دینے میں کوئی
امتیاز نہیں برت سکتی ۔
سیکولر
پارٹیوں سے مسلمانوں کے مطالبات
جو
سیاسی پارٹیاں ہماری تایید چاہتی ہیں وہ مرکزی اور علاقائی دوسطحوں پر وعدہ کریں
کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ گاؤں ؍وارڈ؍بلاک میں آبادی میں تناسب کے لحاظ
سے مسلمانوں کو تمام سرکاری ویلفیر
ا
سکیموں میں عادلانہ حصہ ملے گا جیسے رہائش، علاج، تعلیم، غذا اور کام کی ا سکیمیں
وغیرہ ۔ اس مقصد کے لئے گاؤں؍وارڈ؍بلاک کی سطح پر انتظامی اور نگرانی کی میکینزم
بننا ضروری ہے تاکہ آبادی میں تناسب کے ساتھ مسلمانوں کو انکا حصہ مل سکے۔ جہاں
بھی ممکن ہو اسکیمیں تمام غربا اور مستحقین کے لئے بنائی جائیں، مثلا صحت اور
زندگی کے حق کی اسکیمیں صرف اقلیت کے لئے نہیں بلکہ پوری آبادی کے مستحقین کے لئے
ہوں۔
مسلم
سماج کے مخصوص مسائل:
عمومی
نوعیت کی ضروریات اور سہولتوں کے ساتھ ساتھ مسلم سماج کے کچھ اپنے الگ مسائل بھی
ہیں جن کے بارے میں سیکولر سیاسی پارٹیاں وعدہ کریں کہ وہ مرکزیا صوبے میں اقتدار
میں آنے پر دو سال کے اندر اپنے دائرۂ اختیار میں یہ مسائل حل کریں گی ۔ ایسے واضح
اور لکھے ہوئے وعدے کی بنیاد پر ہم ان کو اگلے الیکشن میں ووٹ دیں گے۔ ہمارے مخصوص
مسائل اور مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ بارہویں پنچ سالہ پلان میں اقلیتوں
کے بارے میں سفاشارت کا مکمل اور ایماندارانہ نفاذ۔
۲۔ فساد مخالف بل کو بغیر کسی تبدیلی
اور تخفیف کے لاگو کرنا، جسمیں فساد کرانے والے افراد اور سیاسی پارٹیوں کے الیکشن
لڑنے پر پابندی کی شق بھی شامل ہو نیز نچلی سطح کی انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری
بھی طے ہو۔
۳۔ جسٹس سچر کمیٹی اور جسٹس مشرا کمیشن
کی سفارشات کا مکمل نفاذ۔
۴۔ دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو
شیڈولڈ کاسٹ ریزرویشن میں دستور کی دفعہ ۳۴۱ کے تحت شامل کرنا اور اس کے لئے ۱۹۵۰ میں صادر ہونے والے صدر جمہوریہ کے
غیر دستوری اور ظلم پر مبنی حکم کو واپس لینا۔
۵۔ یواے پی اے اور افپسا جیسے قانونوں
کو ختم کرنا اور اس بات کا وعدہ کرنا کہ ان قانونوں کی ظالمانہ شقوں کو چپکے سے
کسی اور قانون میں نہیں داخل کیا جائے گا اور تعذیب کو ہر صورت میں غیر قانونی
قرار دینا۔
۶۔ (ألف): دہشت گردی کے نام پر گرفتار
معصوم مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی اگر ۱۸۰ دنوں میں چارج شیٹ فائل نہیں ہوتی
ہے،ان کے خلاف الزامات کو واپس لینا اگر دوسال میں کیس فائل نہیں ہوتا ہے، اوران کے
خلاف کیس کو واپس لینا اگرچار سال میں کیس عدالت میں ثابت نہں ہوتاہے۔ اس کام کے
لئے ٹاڈا کی طرح سے اسکرینینگ کمیٹی قائم کی جائے۔
(ب) دہشت گردی میں ماخوذ تمام ملزمین کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں
کا قیام اس شرط کے ساتھ کہ عدالتوں سے متعلق ججوں پر دوسرے کیسوں کا بوجھ نہ ڈالا
جائے۔
(ج) دہشت گرد ی کے جن ملزمین کی باعزت رہائی ہوتی ہے ان کو قید
کے ہر سال پر پانچ لاکھ روپیہ ہرجانہ۔
(د) جو افسران باعزت بری ہونے والے ملزمین کو پھنسانے میں ملوث
تھے اورجنہوں نے تعذیب کے ذریعہ ان سے اعتراف نامے حاصل کئے تھے، ان کی بر طرفی
اور ان پر مقدمات قائم کرنا۔
۷۔ شیڈولڈ کاسٹ کے لئے رزرو کردہ مسلم
اکژیتی پارلیمنٹری اور اسمبلی سیٹوں کو رزرویشن سے نکالا جائے اور اس مقصد کے لئے
اول فرصت میں ڈیلیمیٹیشن کمیٹی کا انعقاد کرایا جائے کہ متعین مدت میں یہ کام
انجام دے۔
۸۔ بجٹ کے اندرشیڈولڈ کاسٹ کے طرز پر
مسلمانوں کے لئے بھی سب پلان بنایا جائے جسمیں آبادی میں تناسب کے لحاظ سے
مسلمانوں کے لئے بجٹ مختص کیا جائے۔
۹۔ تمام وقف جائدادوں کو متعلقہ وقف
بورڈوں کے حوالے کیا جائے اور قابل احترام مسلم علماء اور شخصیات کو وقف بورڈوں کا
ممبر بنایا جائے۔
۱۰۔ مدرسہ ا سکیموں کی تشہیر ہو اور
مدارس کی سندوں کو اسکولوں اور کالجوں کی سندوں کے مساوی تسلیم کیا جائے تاکہ
مدارس کے فضلا کو ملازمتیں اور یونیورسٹیوں میں داخلے مل سکیں۔
۱۱۔ اسلامی یا اخلاقی بینکنگ اور فائننس
کو جلد از جلد نافذ کیا جائے جیسا کہ فائننشیل ریفارم کے لئے رگھورام راجن کمیٹی
نے مشورہ دیا ہے۔
۱۲۔ اردو میڈیم اسکولوں کی اجازت اور
اردو دان لوگوں کو ملازمتوں کی سہولتیں ۔
۱۳۔ قابل احترام مسلم شخصیات کی سرکاری
عہدوں، مثلا کمیشنوں، بورڈز اور گورنروں، پر تعیناتی اور پدماانعامات میں ان کی
شمولیت ۔
۱۴۔ سامراجی عہدکے ظالمانہ پولیس ایکٹ
کو ختم کرکے اس کی جگہ عوام دوست پولیس ایکٹ لایا جائے جس کے تحت پولیس عوام کی
خادم ہو۔ نیز پولیس کو فرقہ پرستی سے پاک کیا جائے اور مسلمانوں کو پولیس فورس میں
آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
ملی
اور سیاسی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے یہ ہمارا مجوزہ ایجنڈا ہے۔ اگر اس پر
ایمانداری سے عمل کیا جائے تو ملت بھی آگے بڑھے گی اور ملک بھی ترقی کرے گا کیونکہ
ایک بڑی اقلیت کو نظر انداز کرنے سے پوراملک پیچھے رہ جائے گا جس میں نہ ملک کا
فائدہ ہے اور نہ اس طبقہ کا جو مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتا ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات
بسم الله الرحمن
الر حيم
حدیث نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم
اور سائنس کے
اعترافات
ڈاکٹر محمد سلمان
خان ندوی
اسسٹنٹ
پروفیسر ممتاز پی جی کالج لکہنو
اسلام اور سائنس ایک ایسا وسیع اوراہم موضوع ہے جس پر کافی کام ہو چکا ہے
، دور جدید میں اسلامی تعلیمات کے بنیادی اہم مصادر یعنی قرآن وحدیث کے سائنسی
انکشافات کا برابر جائزہ لیا جارہا ہے ، امراض کے علاج ، قدرتی آفات اور آفاق
وانفس میں در پیش مسائل پر قرآن وحدیث کی روشنی میں تحقیق مسلسل جاری وساری ہے۔
اسلام میں تحقیق کو علم کی کسوٹی پر رکھا گیا ، عہد وسطی کی علمی وفنی ترقیات ہی نے
انہیں دنیا کی امامت وسیادت کا اہل بنایا تھا اور وہ علم وفن میں آگے ہونے ہی کی
وجہ سے پوری دنیا پرحاکم بنے ہوے تھے، عہد وسطی کے مسلمان سائنسدانوں نے علم کو
صرف اِسلام ہی کی دولت سمجھتے ہوئے محدُود کرنے کی بجائے اپنے دروازے ہر مذہب کے
ماننے والوں کے لئے کھلے رکھے اور علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ وِرثہ قرار دیا اسی طرح اسلامی تہذیب نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید
کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا؛ چنانچہ عقل
وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور فکر وشعور دونوں اس کی جولان گاہ اور یہ بھی
تہذیبِ اسلامی کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی سہیم
وشریک نظر نہیں آتا، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے
اسلامی تہذیب نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے
کی پختگی جس کا محور ہو، ایسا نہیں کیاکہ دین کو حکومت اور تہذیب کی ترقیات سے الگ
رکھے؛ بل کہ ہر قسم کی ترقی میں دین کو اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی؛ چناںچہ بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ اور
غرناطہ کے منارہ ہائے مسجد سے علم ودانش کی کرنیں پھوٹیں اور عالم کے گوشے گوشے کو
منور کرگئیں،
اس مختصر تمہید کے بعد زیر نظر مضمون میں ہم نے مختلف مکاتب فکر
،مذاہب و طریق کے ماننے والوں اور سائنسی دنیا سے جڑے ہوے اشخاص کے وہ بیا نات ذکر
کئے گئے ہیں جنہوں نے احادیث رسول ﷺ کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہونچے جو ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں ۔
جنین
کی نشوونما کے پہلے چالیس دن :
ڈاکٹر جولے سمپسن
، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ حمل و زچگی و امراض نسوانی
( Ob-Gyn ) کے چیئرمین اور سالماتی و انسانی توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے
پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں
شعبہ ” اوب گائن “ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے ، وہ امریکی باروری انجمن کے صدر
بھی تھے ۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف پروفیسرز آف اوب
گائن پبلک ریلکنیشن
ایوارڈ بھی شامل تھا ۔ پروفیسر سمپسن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل
دواحادیث کا مطالعہ کیا ۔
(( ان
احدکم یجمع خلقہ ، فی بطن امه اربعین یوما )) ( صحیح البخاری ، كتاب بدءالخلق ،
باب ذکر الملائکۃ ، حدیث : 3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی ،
حدیث : 2643
)
” تم
میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاءاس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( نطفے کی
صورت ) میں جمع رہتے ہیں ۔ “ (( اذا
مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ ، بعث اللہ الیھا ملکا ، فصورھا وخلق سمعھا وبصرھا
وجلدھا ولحمھا وعظامھا )) ( صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی.... حدیث
: 2645 )
” جب
نطفہ قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے پاس بھیجتا
ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، اس کی
آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ۔ “
پروفیسر
سمپسن ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد
اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر
مشتمل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت
کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر
ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کئے ۔
دونوں
احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر جنینی ارتقاء
کا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج صبح دوسرے مقررین نے
بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے ۔ یہ احادیث جب ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے
میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ میرے خیال میں اس
سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ صرف جینیات ( Genetics ) اور مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، درحقیقت ، مذہب بعض
روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر سکتا ہے
اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت ہوئے اور جو اس
امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی
ہیں ۔
انگلیوں
کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین :
حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: (( اذا اکل احدکم من الطعام فلا یمسح یدہ حتی یلعقھا
او یلعقھا )) ( صحیح مسلم ، الاشربۃ ، باب استحباب لعق الاصابع.... حدیث : 2031 )
” جب
تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے ( انگلیاں )
چاٹ لے یا چٹوالے ۔ “کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی
سائنسدان اس دور میں کر رہے ہیں ۔
ایک
خبر ملاحظہ کیجئے :
جرمنی
کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے پوروں پر
موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب انگلیوں کی پوروں
پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس
طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر جب انسان
کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر
یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے ، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں ۔ (
روزنامہ نوائے وقت 30 جون 2005ء )
اہل
مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند ( Unhigienic ) قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی
تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں
جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں ۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر موجود
پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے
کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بے حد
غیرصحت مند عمل ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین پیدا
کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی
تلقین کی گئی ہے ، یعنی ( 1 ) کھانا ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے ، ( 2 ) ہاتھ
پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی جائیں ۔
دائیں
ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ سنت کو عربوں
نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر صحت مند عمل ٹھہراتے رہے ،
مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین
صحت مند اور فائدہ مند ہے ۔
کتا
چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم :
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( طھور اناءاحدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ
سبع مرات اولاھن بالتراب )) ( صحیح مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فلیرقه اسے چاہئے کہ اس ( میں موجود کھانے یا پانی
) کو بہاد دے ۔ “ ( مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث :
279(89) )
ااور
ترمذی کی روایت میں ہے : ((
اولاھن او اخراھن بالتراب )) ( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب
، حدیث : 91 )
” پہلی
یا آخری بار مٹی کے ساتھ دھونا چاہئے ۔ “
اس کی
توضیح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ( انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے :
یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے
صفائی کے لئے اسے سات دفعہ دھونا ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ
محض صفائی کرنے سے مختلف ہے ۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں
جراثیم اور تقریبا 4 ملی میٹر لمبے کیڑےہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے
ہیں اور اس کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے
چاٹتا ہے تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے
یا کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی ااور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو
جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ انسان
کے معدے میں چلے جاتے ہیں ، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے خلیات میں
گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی تشخیص خوردبینی
ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت کتے کے لعاب کو فی نفسہ
ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار
ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے ۔ ( بلوغ المرام
من ادلۃ الاحکام ) ( انگریزی ) مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 )
مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا :
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم
لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داء وفی الاخرٰی شفاء )) ( صحیح البخاری ، بدءالخلق ،
باب اذا وقع الذباب.... حدیث : 3320 )
” اگر
تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو اسے چاہئے کہ اس
کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے
تو دوسرے میں شفا ۔ “
ڈاکٹر
محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں : ” طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی
اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح
اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے ( Organisms ) اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو
کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی
بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور
پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے
لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل
کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔
(
مصر ) کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی نے اس
حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا
ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast
Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے
لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات
نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا
ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ ( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر
محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
اس
سلسلے میں ” الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم لابن القیم “ کے انگریزی ترجمہ : Healing
with the Madicine of the Prophet
طبع دارالسلام الریاض میں لکھا ہے :
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے
، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت
غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پھینک دینے کا حکم
دیتےاس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی ۔ شہد کی
مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس
حدیث سے ماخوذ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے ۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟
اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لئے کیڑے مکوڑے
یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں ۔
بعض
اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا
کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر گھریلو مکھی کا سر الگ
کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو
انشاءاللہ آرام آجائے گا ۔ ( الطب النبوی : 105,104 )
طاعون
زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت :
حضرت
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( الطاعون رجز ، ارسل علی بنی اسرائیل ، او علی
من کان قبلکم فاذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ ، واذا وقع بارض وانتم بھا ، فلا
تخرجوا فرارا منہ )) ( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 )
” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں
پر نازل ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ
جاؤ اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس علاقے سے
باہر مت جاؤ ۔ “
صحیحین
ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( الطاعون شھادۃ لکل مسلم
)) ( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من الطاعون ، حدیث : 5732 )
”
طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے ۔ “
طبی
اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی عارضہ ہے اور
یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے
پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ طاعون عموماً جسم کے
تین حصوں ، بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک یا جسم کی نرم بافتوں ( Tissues ) پر حملہ کرتا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
(( غدۃ ، کغدۃ البعیر یخرج
فی المراق والابط )) ( التمھید لابن عبدالبر : 6/212 )
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “
اامام
ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ” نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا
ہے ، کے زیر عنوان لکھا ہے :
طاعون
کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت ( Infection ) زخم ( Ulcers ) اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں ، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے
انہیں طاعون کی علامات قرار دیتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے
بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے ۔ اسے
پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے ۔ انسانی جسم میں مضر مادے ہوتے
ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کے مفید مادوں سے
مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لئے جب کسی جگہ طاعون حملہ آور ہو تو
وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ انسان کے جسم میں مضر مادے متحرک نہ ہوں ۔
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانے یا وہیں ٹھہرنے
کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے :
( 1 )
آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے ۔
( 2 )
اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے تقاضے پورے کرنے
کا دارومدار اسی پر ہے ۔
( 3 )
آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے ۔
( 4 )
طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے طاعون نہ آئے ۔
( 5 )
جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں ہوتا ہے جو ان
پر یقین رکھتے ہوں ۔
غرض
یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی تدبیر اور ایک
طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے رکھتی ہے ، اور یہ طاعون
سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آ گے
سرجھکانے کا سبق ہے ۔ پہلا حکم تعلیم و تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور
تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ دینے کا درس دیتا ہے ۔ ( الطب النبوی ( انگریزی )
کے صفحہ 53 کے حاشےے میں ” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے مصنف (
ابن قیم ) کے زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث
مصنف سے بھی تقریبا 700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی ۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے
قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماء کو اس سے متعلق علم کئي صدیوں بعد
حاصل ہوا ۔
********************
Subscribe to:
Posts (Atom)