Sunday, May 19, 2013
Saturday, May 18, 2013
اسلامی اسپین کا علمی و فنی ارتقاء
اسلامی اسپین کے آٹھ سو سالہ دور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم
بھی ارتقاء کے عمل سے گزرے۔ اسپین میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر ترویج کا
باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمن الناصر‘ کے دَور (912ء تا961ئ) میں ہوا، جو اسپین کی
اموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اسلامی اسپین کے ابتدائی 200 سالہ دَور میں
مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے انعقاد اور دنیا کے
تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کردیا تھا مگر اس کام کی
رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اس دو سو سالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم
یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری ارتقاء مشرق کے اسلامی ممالک
کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم استحکام تھا۔
’عبدالرحمن سوم‘ کا دَور جہاں تمدنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہیں سیاسی استحکام کی
بدولت علوم و فنون کی ترویج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ دَور تھا
جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادیٔ افکار نصیب ہوئی اور انہوں نے
علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے
سائنسی طریق کار کو فروغ دیا اور علم ہیئت (astronomy)، علم ریاضی
(mathematics)، علم طب
( medical science)، علم نجوم
(astrology)، علم کیمیا
(chemistry)، علم نباتات
(botany)، علم
جغرافیہ
(geography) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرہ
زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔ تعلیم اس قدر عام ہوئی کہ شرح خواندگی سو فیصد تک جا پہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصور بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا تھا۔ دوسری طرف اسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمن سوم‘ کے جانشین ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (961ء تا976ئ) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دنیا بھر میں شہرت اختیار کرگیا تھا۔ وہاں کتب فروشوں کی دکانیں 20ہزار تک جا پہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے ذریعے ان کی نقول بھی تیار کرواتے تھے۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں 170کے قریب خواتین قرآن مجید کو خطِ کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔
مزید تفصیل کے لیے رابطہ کرین
09936244415
Subscribe to:
Posts (Atom)